مذہب اور کردار پہ ڈال کے پردہ
سیاست نے کیا ہے زمانہ کو خراب
اترپردیش کا ہاتھرس ایک بار پھر سرخیوں میں آگیا ہے اور اس بار بھی غلط وجوہات کی بناء پر ہی سرخیوںمیںآگیا ہے ۔ کچھ وقت قبل ایک دلت لڑکی کی عصمت ریزی اور موت کے مسئلہ پر ہاتھرس سرخیوںمیں چھایا ہوا تھا اور اس بار ایک مذہبی پروگرام میںشرکت کرنے والے عوام میں بھگدڑ اور 119 افراد کی ہلاکت کی وجہ سے یہ مقام سرخیوں میں چھایا ہوا ہے ۔ یہ ایک بڑا سانحہ تھا جس میں ایک سو سے زیادہ جانیں تلف ہوگئی ہیں۔ اس طرح کے واقعات اکثر و بیشتر ہندوستان میںمختلف مقامات پر پیش آتے رہتے ہیں۔ مذہبی تقاریب میں انتظامات منظم انداز میں نہیں کئے جاتے اور عوام ایک جم غفیر کی طرح وہاں جمع ہوجاتا ہے ۔ ایک طرح سے یہ عوام کے مذہبی استحصال کے مترادف ہے کیونکہ اکثر و بیشتر جن مقامات پر یہ واقعات یا حادثات پیش آتے ہیں وہ کوئی باضابطہ مذہبی مقام نہیں ہوتے بلکہ ایسے عناصر یہ لبادہ اوڑھ لیتے ہیں جو سماج میں کسی اور کام کے لائق نہیںرہ جاتے ۔ ہاتھرس میں بھی جس بابا کے ست سنگ میں شرکت کیلئے یہ لوگ گئے تھے وہ کوئی باضابطہ سادھو یا کوئی اور مذہبی رہنما نہیں ہے بلکہ ایک عام شخص ہے جس کے خلاف جنسی ہراسانی کے مقدمات بھی درج ہونے کا پتہ چلا ہے ۔ جس شخص کے خلاف خود جنسی ہراسانی جیسے جرائم کے مقدمات درج ہوںاگر وہی عوام کو پاٹھ پڑھانے یا ست سنگ کرنے لگیں تو پھر یہ عوام کا مذہبی استحصال ہی ہے کیونکہ ان لوگوں کو خود مذہبی تعلیمات کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی اپنی زندگیوں میں ہی بے راہ روی ہوتی ہے ۔ وہ دوسروں کے استحصال کو اپنا حق سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ آج ہندوستان کے تقریبا کئی شہروں میں اس طرح کے عناصر نے اپنے آشرم اور ٹھکانے بنا لئے ہیںجہاں وہ بھولے بھالے عوام کا استحصال کرنے لگتے ہیں۔ ان کی دولت ہتھیانے سے گریز نہیں کرتے اور ان کو مذہب کے نام پر بیوقوف بنانے کا سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے ۔ جہاں تک انتظامیہ کا سوال ہے تو اس طرح کے معاملات میں انتظامیہ بالکل بھی بے اثر نظر آتا ہے کیونکہ انتظامیہ کی ایسے عناصر کی جانب کوئی توجہ نہیں رہتی اور یہ لوگ اپنا استحصال کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔
وقفہ وقفہ سے ایسے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں جہاں کسی آشرم میں کسی مذہبی شخصیت کے ہاتھوں لڑکیوں کی عزتوں اور عصمتوں کو داغدار کیا جاتا ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میں اپنے بھکتوں کو جمع کرنے کا ایسے عناصر کو کس نے اختیار دیا ہے اس بات کا جائزہ لینے کو کوئی تیار نہیں ہوتا ۔ یہ عوام کی زندگیوںاور ان کی مذہبی عقیدت کے ساتھ کھلواڑ اور ایک بھونڈا مذاق ہے ۔ ہاتھرس میں بھی جو راستہ ست سنگ کے مقام تک جارہا تھا وہ بہت تنگ تھا اور بھیڑ بہت زیادہ تھی ۔ اس کے باوجود وہاں عوام کی سہولت کیلئے کوئی انتظامات نہیں کئے گے ۔ وہاں سے عوام کے گذرنے کا راستہ بہتر نہیں بنایا گیا تھا ۔ یہی وجہ رہی کہ لوگ وہاں دم گھٹنے کا شکار ہوئے اور ان میں اچانک ہی بھگدڑ مچ گئی جس کے نتیجہ میں ایک سو سے زیادہ انسانی جانیں تلف ہوگئیں۔ اب حکومت کی جانب سے عدالتی تحقیقات کا اعلان کیا گیا ہے ۔ مہلوکین کے لواحقین کو دو دولا کھ روپئے ایکس گریشیا کا بھی اعلان کیا گیا ہے اور واقعہ پر افسوس کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے ۔ تاہم یہ سب کچھ وقت گذرنے کے بعد لکیر پیٹنے جیسا ہے کیونکہ انسانی جانیں جو تلف ہوگئی ہیں وہ توواپس ہونی نہیں ہیں۔ مقامی سطح پر انتظامیہ کو ایسے واقعات کیلئے ذمہ دار قرار دیا جانا چاہئے ۔ جن کے دائرہ کار میں یہ علاقہ آتا ہے ان سے جواب طلب کیا جانا چاہئے کہ انہوں نے قبل از وقت اس کا نوٹ کیوںنہیں لیا اور یہ کیوں پتہ نہیں چلایا کہ جہاں ست سنگ ہو رہا ہے واقعی وہ کوئی مذہبی شخصیت ہے بھی یا نہیں ۔
انسانی جانوں کے اس طرح سے اتلاف کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی ۔ صرف تحقیقات کا اعلان کرنے سے یا پھر معاوضہ کا اعلان کرنے سے صورتحال کا تدارک نہیں کیا جاسکتا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی ہر ریاست میں ہر شہر میں اس طرح کے آشرموں اور ٹھکانوں کا پتہ چلایا جائے ۔ یہ دیکھا جائے کہ یہ قوانین کے مطابق کام کر بھی رہے ہیں یا نہیں۔ آشرم چلانے والوں کی مذہبی حیثیت کیا ہے ۔ انہیں بڑے عوامی اجتماع کا اختیار ہے بھی یا نہیں۔ مذہبی جذباتیت کا شکار ہوئے بغیر قانون کے مطابق سب کو باقاعدہ بنانے پر توجہ کی جانی چاہئے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ ہونے نہ پائے ۔