عوام کو ترجیح

   


وزیر اعظم نریندر مودی نے آج تلنگانہ کا دورہ کیا ۔ انہوں نے کچھ ترقیاتی پراجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھا اور آغاز بھی کیا اور پارٹی قائدین سے خطاب بھی کیا ۔ وزیر اعظم پارٹی کارکنوں سے خطاب کریں اورا س میں سیاست یا طنز نہ ہو شائد ایسا نہیں ہوسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب وزیر اعظم نے تلنگانہ میں بی جے پی کارکنوں سے خطاب کیا تو انہوں نے ریمارک کیا کہ تلنگانہ میں ایسی حکومت ہونی چاہئے جو عوام کو ترجیح دے خاندان کو نہیں ۔ عوام پہلے ہونے چاہئیں خاندان بعد میں ہونا چاہئے ۔ تلنگانہ میں ایسی حکومت کا قیام عمل میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ وزیر اعظم کا یہ ریمارک واقعی اہمیت کا حامل ہے کہ کسی بھی جمہوری طرز حکمرانی میں عوام ہی کو ترجیح دی جانی چاہئے ۔ بات صرف تلنگانہ تک محدود نہیں ہونی چاہئے ۔ یہی فارمولا سارے ملک میں اختیار کیا جانا چاہئے جبکہ ایسا ہو نہیں رہا ہے ۔ تلنگانہ میں سیاست بہت گرم ہوتی جا رہی ہے اور یہاں سیاسی سرگرمیوں میں بھی شدت پیدا ہوگئی ہے ۔ سیاسی جماعتیں اور قائدین ایک دوسرے کو تنقیدوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ جوابی الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ اس صورتحال میں یہ حقیقت ہے کہ عوام کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ تاہم یہ صورتحال صرف تلنگانہ کی نہیں ہے ۔ تلنگانہ میں سیاست کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے لیکن سارے ملک میں دو چار کارپوریٹس کی وجہ سے عوام کو کہیں پیچھے ڈھکیل دیا گیا ہے اور ان پر مسلسل بوجھ عائد کیا جا رہا ہے ۔ یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ حکومت ملک کے عوام کی بجائے کارپوریٹس کیلئے کام کر رہی ہے ۔ عوام کے مفادات پر کارپوریٹس کے مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے ۔ جو فیصلے مرکزی حکومت کی جانب سے کئے جا رہے ہیں ان کے نتیجہ میں کارپوریٹس کی دولت میں مسلسل اور تیزی سے اضافہ ہوتاجا رہا ہے اور ملک کے عوام اپنی جمع پونجی سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کیلئے روزمرہ کی ضروریات کا حصول تک مشکل ہوتا جا رہا ہے اور حکومت اس جانب کوئی توجہ دینے تیار نظر نہیں آتی ۔ یا پھر حکومت کی ترجیح عوام ہیں ہی نہیں بلکہ وہ تو محض چند حاشیہ بردار کارپوریٹس کو ہی فائدہ پہونچانے کیلئے مسلسل اور بے تکان کام کر رہی ہے ۔
عوام پہلے یا عوام کو ترجیح دینے کی بات کرنے والے وزیر اعظم کو عوام سے کئے گئے وعدوں پر بھی جواب دینا چاہئے ۔ بات اگر صرف تلنگانہ کی جائے تب بھی وزیر اعظم کو تلنگانہ عوام سے کئے گئے وعدوں پر جواب دینا چاہئے ۔ جو وعدے تقسیم ریاست کے بل میں کئے گئے تھے انہیں بھی پورا نہیں کیا گیا ہے ۔ نہ ریلوے کوچ فیکٹری قائم کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی اہم تعلیمی ادارہ یا یونیورسٹی تلنگانہ میں قائم کیا گیا ہے ۔ تلنگانہ کے نوجوانوں کو وزیرا عظم کے وعدہ کے مطابق سالانہ دو کروڑ روزگار میں سے حصہ ملنا چاہئے تھا ۔ یہ نوجوان آج سوال کر رہے ہیں کہ ان کے روزگار کو وزیر اعظم یا ان کی حکومت کی جانب سے ترجیح کیوں نہیں دی گئی ۔ وزیر اعظم نے عوام سے ہی وعدہ کیا تھا کہ وہ بیرونی ممالک کے بینکوں میں چھپائے گئے کالے دھن واپس کو واپس لائیں گے اور عوام کے بینک اکاؤنٹس میں لاکھوں روپئے جمع کروا دئے جائیں گے ۔ تلنگانہ کے عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ اب تک کتنا کالا دھن بیرون ملک سے لایا گیا ۔ اصل سوال یہ بھی ہے کہ آیا کالا دھن واپس لایا گیا ہے یا ملک میں موجود جائز دولت کو مزید زیادہ اور تیزی کے ساتھ بیرونی ممالک کو منتقل کردیا گیا ہے ؟ ۔ تلنگانہ کے عوام یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ جو ہزاروں کروڑ روپئے کارپوریٹس کو قرض دے کر معاف کردئے گئے ہیں کیا ان کو واپس لیا جائیگا یا پھر اس کا بوجھ بھی ملک کے عوام پر ہی منتقل کردیا جائیگا ؟ ۔ یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب نریندر مودی کو بحیثیت وزیر اعظم دینا چاہئے ۔
جس وقت سرکاری ادارے خانگی کارپوریٹس کو فروخت کئے گئے اس وقت بھی عوام کو ترجیح دی جانی چاہئے تھی کیونکہ یہ ادارے عوامی ملکیت تھے ۔ ائرپورٹس اور بندرگاہیں جب حاشیہ بردار کارپوریٹس کو دی گئیں اس وقت عوام یا ان کو ملنے والے سرکاری روزگار کو ترجیح نہیں دی گئی ۔ بی ایس این ایل کو بتدریج ختم کرتے ہوئے وہاں ہزاروں افراد کے روزگار کو ختم کردیا گیا اس وقت عوام کو ترجیح دینے کا خیال نہیں آیا ۔ ریلوے میں خانگی اداروںکی مداخلت شروع کردی گئی ہے اس وقت بھی عوام کو ترجیح نہیں دی گئی ہے ۔ صرف زبانی جمع خرچ کی بجائے وزیر اعظم کو حقیقی معنوں میں عوام کو ترجیح دینے اور انہیں پہلے نمبر پر رکھنے کے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہی جمہوریت کا تقاضہ ہے اور یہی جمہوریت کی انفرادیت ہے ۔
گجرات میں امیدواروں کا انتخاب
سیاسی اعتبار سے اہمیت کی حامل ریاست گجرات میں انتخابی بگل بج چکا ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی آبائی ریاست ہونے سے اس کی سیاسی اہمیت زیادہ ہے ۔ اب جبکہ وہاں اسمبلی انتخابات کا بگل بج چکا ہے اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کے انتخاب کا سلسلہ جاری ہے تو ایسے میں بی جے پی نے اپنی پرانی روش کو ہی برقرار رکھا ہے اور اس نے سماجی جذبات کا احساس کئے بغیر صرف سیاسی اور متعصب ذہنیت کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دی ہے ۔ بی جے پی نے اس رکن اسمبلی کو دوبارہ امیدوار بنایا ہے جس نے بلقیس بانو عصمت ریزی کیس کے مجرمین کو ’’ سنسکاری ‘‘ قرار دیا تھا ۔ بی جے پی نے اس بی جے پی لیڈر کی دختر کو بھی ٹکٹ دیا ہے جو نروڈا پاٹیہ قتل عام کیس میں ملوث رہے ہیں اور انہیں بھی سزا ہوئی تھی ۔ بی جے پی نے اس طرح کے امیدواروں کا انتخاب کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنی متعصب ذہنیت کا ثبوت دیا ہے اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ سماج اور خاص طورپر مسلم سماج کے جذبات و احساسات کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے کوئی ضرورت ہے ۔ اس طرح کے امیدواروں کو پیش کرتے ہوئے بی جے پی نے ایک طرح سے ان امیدواروں کے موقف کی توثیق کردی ہے ۔ انہوں نے جو کچھ بھی زہر افشانیاں کی تھیں ان کو ایک طرح سے بی جے پی نے سرٹیفیکٹ دیدیا ہے ۔ یہ انتہائی افسوسناک پہلو ہے کہ صرف انتخابی کامیابی کو اہمیت دی جا رہی ہے اور سماج کے تانے بانے بکھیرنے کی کوششوں کی اسے کوئی پرواہ نہیں رہ گئی ہے اور نہ ہی وہ اس پر کوئی توجہ دینا چاہتی ہے ۔