دین اسلام روئے زمین پر واحد خدا کا مذہب ہے،جو تاقیامت اپنی آب و تاب کے ساتھ قائم و باقی رہے گا۔ حوادث زمانہ اور آفات و مصائب کی آندھیاں اِس کی مضبوط بنیادوں کو متاثر نہیں کرسکتیں، اس کی بنیادیں حقائق و دلائل پر منحصر ہیں۔ اس میں فرسودہ اوہام، خیالات، من گھڑت کہانیوں اور من چاہی تاویلات کی قطعاً گنجائش نہیں۔ ہر دور میں باطل کے طوفان اُمنڈ آئے، لیکن اسلام کی بنیادی تعلیمات اور اساسی عقائد و نظریات کو مشکوک نہ کرسکے۔ اہل اسلام نے چودہ صدیوں میں بڑے عروج و زوال اور ترقی و انحطاط کو دیکھا، لیکن کبھی انھوں نے اللہ تعالی، حضور نبی اکرم ﷺ، قرآن مجید، شریعت مقدسہ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم پر کوئی مفاہمت نہیں کی۔ ان کی عظمتیں ان کے دلوں میں مستحکم و پائیدار ہیں، جن کی وجہ سے اسلامی عقائد و نظریات میں کبھی بگاڑ پیدا نہیں ہوا اور کسی نے بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش بھی کی ہو تو وہ باقی نہ رہ سکی۔
اس کے برخلاف یہودیت اور عیسائیت پر غور کریں کہ وہ بھی خدائی دین کے حامل، آسمانی کتاب اور نبی وقت پر ایمان لانے والے تھے، لیکن انھوں نے اپنے نبی، نبی کے حواری اور آسمانی کتاب کی ایسی تعظیم نہ کی، جس طرح اہل اسلام نے کی ہے۔ عیسائیوں کے نزدیک نبی ہمیشہ معصوم نہیں ہوتے، بلکہ وہ صرف اثنائے وحی معصوم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان سے عام خطائیں بھی سرزد ہو سکتی ہیں۔ انھوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے صحابہ یعنی حواریوں کو اس قدر بلند کیا کہ ان کی تشریحات کو وحی الٰہی کا درجہ دے دیا، جس کے نتیجے میں اصل کتاب ہی روئے زمین پر باقی نہ رہی اور ہر ایک نے اپنے انداز میں عوام الناس کی تفہیم کے لئے انجیل کی وضاحت کی، حتی کہ انھوں نے اللہ تعالی کے وجود اور افعال و اختیارات کو سمجھانے کے لئے مخلوق اور عام انسانوں سے تشبیہ دینی شروع کی، جس کے نتیجے میں عیسائی آج خدا کو عام انسانوں کی طرح سمجھنے لگے۔ چنانچہ انجیل میں موجود ہے کہ اللہ تعالی نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ساتویں دن اس نے آرام کیا۔ نعوذ باللہ!۔ نقل کفر، کفر نہ باشد۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ انھوں نے مراتب کو ملحوظ نہیں رکھا، جس کے نتیجے میں وہ افراط و تفریط، غلو و تنقیص کا شکار ہوکر راہِ راست سے بھٹک گئے اور حقیقی عیسائیت سے خارج ہو گئے، لیکن چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود اسلام میں ایسی بے راہ روی اور گمراہی پیدا نہیں ہوئی، اس لئے کہ یہ ابدی اور تاقیامت رہنے والا خدا کا آخری پیغام ہے اور اللہ سبحانہ و تعالی نے اس کی حفاظت کا بہترین انتظام کیا ہے۔ علاوہ ازیں اسلام کی حفاظت و سربلندی کیلئے صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ مجتہدین نے جو غیر معمولی اور محیر العقول کارنامے انجام دیئے، وہ قابل صد افتخار ہیں۔عہد نبوی میں کتابت وحی کا آغاز کیا گیا اور قرآن پاک کو چیدہ چیدہ محفوظ کردیا گیا، لیکن صحابہ کرام نے باہمی مشورہ سے قرآن مجید کو یکجا کیا اور انھوں نے سارے عالم اسلام میں قرآن مجید کے نسخوں کو عام کرکے تحریف اور تبدیل سے محفوظ کردیا۔ صحابہ کرام نے سرکار دوعالم ﷺ کی ایک ایک بات، ایک ایک عمل، ایک ایک حرکت اور ایک ایک ادا کو اپنے سینوں میں محفوظ رکھ کر آنے والی نسلوں تک پہنچایا۔ انھوں نے ہی اسلامی فقہ، قانون اسلامی، اجتہاد، اجماع، قیاس، نیز تفسیر، حدیث اور فقہ کے اصول کے لئے راہیں ہموار کیں، آنے والی نسلوں کے لئے بہترین نقوش چھوڑے اور اسلام کی حفاظت کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان حضرات نے احتیاط کو حد درجہ ملحوظ رکھا، چنانچہ ابوداؤد، کتاب الفرائض باب فی الجدۃ میں ایک روایت حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نقل کی ہے کہ ایک خاتون، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے اپنے مرحوم پوترے کی جائیداد میں حصہ کا مطالبہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس خاتون سے کہا کہ دادی کا حصہ قرآن میں نہیں ہے اور میرے علم میں نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺکی سنت میں تمہارے لئے کچھ ہے، تاہم میں دیگر صحابہ کرام سے مشورہ کرتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے عام مجمع میں اس کا ذکر کیا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ’’میں حضور پاک ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر تھا، آپﷺ نے دادی کے لئے چھٹویں حصہ کا حکم فرمایا‘‘۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف حضرت مغیرہؓ کی بات پر اکتفاء نہیں کیا، بلکہ فرمایا: ’’تمہارے ساتھ کسی اور نے بھی یہ فیصلہ سنا ہے؟‘‘ تو حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُٹھے اور انھوں نے بھی حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تائید کی۔ اس روایت کو امام ترمذی نے بھی الفرائض میں ذکر کیا ہے اور اس کو حدیث حسن قرار دیا۔
اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی روایت کردہ حدیث ’’جب تم میں سے کوئی تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اس کو اجازت نہ دی جائے تو اس کو چاہئے کہ وہ واپس ہو جائے‘‘ پر دلیل و ثبوت طلب کیا۔ چنانچہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتایا کہ انھوں نے بھی حضور پاک ﷺسے اس حدیث کو سنا ہے۔ (امام بخاری نے کتاب الاستئذان باب التسلیم والاستئذان ثلاثا میں اور امام مسلم نے کتاب الادب باب الاستئذان میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا ہے)۔
نتیجہ ٔ کلام یہ ہے کہ صحابہ کرام اسلام کی نظر میں وہ مافوق الفطرت یا ماوراء القانون نہیں ہیں لیکن انھوں نے حضور پاک ﷺ کی صحبت بافیض اور تربیت خاص میں تربیت پاکر اسلامی مزاج اور شریعت اسلامی کی روح کو جانا اور آپ ﷺ کے وصال مبارک کے پچاس سال تک اس دنیا کے مشرق و مغرب میں اسلام کے پرچم کو نصب کرکے اسلامی قانون کو مستحکم کردیا ۔ بناء بریں یہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہے کہ اسلام کی تکمیل عہدنبوی میں ہوگئی تھی لیکن اسلام کی تعمیل صحابہ کرام کے عہد میں مکمل ہوئی ۔ اس لئے اسلام اور مسلمانوں کے دلوں میں صحابہ کرام کی بے انتہاء عظمت و احترام ہے ، اور مسلمان اُن کی شان میں ادنیٰ توہین و زیادتی کو برداشت نہیں کرسکتے ۔ تمام صحابہ عادل ہیں ، ثقہ ہیں ، وہ محفوظ ہیں ، وہ ہر فیصلہ میں حق اور رضائے الٰہی کے طالب ہیں ، وہ نفس کے برے صفات سے عاری ہیں ۔ وہ نہایت پاکیزہ ذوات قدسیہ ہیں ، وہ ہدایت کے روشن ستارے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’میرے صحابہ کی مثال ستاروں کی طرح ہے جن سے ہدایت رو ہنمائی حاصل کی جاتی ہے ، پس اُن میں سے تم جس کسی کے قول کو بھی تھاموگے ہدایت پاجاؤ گے ‘‘۔ ( امام عبد بن حمید نے اس کی رویت کی ہے ) ۔
نبی اکرم ﷺ نے متعدد موقعوں پر ارشاد فرمایا ’’تم صحابہ سے متعلق اﷲ تعالیٰ سے ڈرو ، میرے صحابہ کے ساتھ بھلائی کرو ‘‘اور ایک روایت میں آپؐ نے فرمایا ’’میرے صحابہ کے بارے میں میرا لحاظ رکھنا کیونکہ وہ میری اُمت میں سب سے بہترین ہیں ‘‘ ( امام قضاعی بروایت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’میرے صحابہ کے بارے میں اﷲ سے ڈرو اور میرے بعد اُن کو اپنی گفتگو کا نشانہ نہ بناؤ کیونکہ جس نے اُن سے محبت کی اُس نے میری محبت کی وجہ سے اُن سے محبت کی اور جس نے اُن سے بغض رکھا اُس نے میرے بغض کی وجہ سے اُن سے بغض رکھا اور جس نے اُن کو تکلیف پہنچائی اُس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اﷲ کو تکلیف دی اور جس نے اﷲ کو تکلیف دی عنقریب اُس کی گرفت ہوگی ‘‘۔
( ترمذی کتاب المناقب باب اصحاب النبی ﷺ )
بناء بریں عقائد کی کتابوں میں صحابہ کرام سے متعلق تعظیم و احترام بجالانے کا حکم ہے اور ہر مسلمان صحابہ کے ذکر خیر کا پابند ہے چنانچہ شرح عقائد نسفی میں ہے : ’’صحابہ کا خیر کے علاوہ ذکر کرنا ممنوع ہے‘‘ اور شرح فقہ اکبر میں ہے : ’’ہم کسی بھی صحابی کا صرف خیر ہی کے ساتھ ذکر کریں گے‘‘۔ اور عقیدۂ الطحاوی میں صحابہ کی محبت کو دین ایمان اور احسان سے تعبیر کیا گیا ۔ چنانچہ مذکورہ ہے ’’حبھم دین و ایمان و احسان وبغضم کفر و نفاق و طغیان ‘‘۔ لہذا صحابہ کرام کی شان میں ادنیٰ سی بے ادبی و بے احتیاطی از روئے شرع سنگین جرم و قابل مواخذہ ہے ۔