عیادت کی اہمیت احادیث کی روشنی میں

   

ترتیب: عبدالعزیز مرسلہ : آمنہ احمد
عیادت کیلئے کسی سخت مرض کی خصوصیت بھی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جب کوئی شخص صاحب فراش ہوجائے، تب اس کی عیادت کی جائے۔ محض معمولی مرض میں بھی عیادت کرنی چاہئے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ”میری آنکھ کی ایک تکلیف میں رسول اللہ ﷺ نے میری عیادت فرمائی“۔ (ابوداؤد)
عیادت کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ رب العالمین اس سے خوش ہوتا ہے۔ یہ اللہ کے نزدیک اتنا اچھا اور قابل قدر عمل ہے کہ اس کیلئے وضو کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ نے کہاکہ ”رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا: جس نے اچھی طرح وضو کیا اور اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کی حصولِ ثواب کی نیت سے تو وہ جہنم سے ستر سال کی مسافت کے برابر دور کر دیا جائیگا۔ میں نے کہا اے ابو حمزہ خریف کے کیا معنی؟ انھوں نے کہا: اس کے معنی ”سال“ کے ہیں“۔ ”ستر سال کی مسافت“ کا ذکر یہ بتانے کیلئے ہے کہ وہ دوزخ سے بہت دور کر دیا جائے گا“۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ جو شخص کسی مریض کی عیادت شام کو کرتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے اس کیلئے استغفار کرتے ہوئے نکلتے ہیں، یہاں تک کہ صبح ہوجائے اور اس کو جنت میں ایک نیا باغ ملے گا اور جو شخص کسی مریض کے پاس صبح کو آتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے اس کیلئے استغفار کرتے ہوئے نکلتے ہیں، یہاں تک کہ شام ہوجائے اور اس کو جنت میں ایک نیا باغ ملے گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو کسی مریض کی عیادت کرتا ہے اس کو آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے تم اچھے اور تمہاری چال اچھی اور تم نے جنت میں اپنے لئے ایک خاص محل بنالیا۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہ جنت کے پھل چنتا رہتا ہے، یہاں تک کہ واپس آجائے۔ دریافت کیا گیا ’خرفۃ الجنۃ‘ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’جنت کے پھل‘۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی ایسے مریض کی عیادت کی جس کی موت کا وقت نہیں آیا ہے پھر اس نے سات بار یہ دعا کی: ”أَسْأَلُ اللّهَ الْعَظِيْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ أَنْ يَشْفِيَكَ“۔ ”میں اللہ سے جو عرشِ عظیم کا رب ہے، دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں شفا دے“۔ تو اللہ اس کو اس کے مرض سے شفا دے گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺنے یہ تعلیم بھی دی ہے کہ کوئی شخص عیادت کو جائے تو مریض کیلئے دعا کرے۔ دعا کی جو شرطیں اور آداب ہیں ان کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب کوئی شخص کسی مریض کی عیادت کیلئے آئے تو اس کو کہنا چاہئے، اے اللہ اپنے بندے کو شفا دے۔ یہ تیرے کسی دشمن کو قتل کرے گا یا تیری خوشنودی کیلئے کسی جنازے میں شریک ہوگا۔
اس حدیث میں مریض کے آئندہ ہونے والے کسی عمل صالح کا حوالہ دے کر دعا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس طرح کی احادیث متعدد ہیں۔ ان سب کو جمع کرنا مقصود نہیں۔ مریض کے سامنے ایسی باتیں کرنی چاہئے جن سے اس کا دل خوش ہو۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو موت کے بارے میں اس کی فکر کو دور کردو، اس لئے کہ یہ بات اس کے دل کو خوش کرے گی“۔
(ابو داؤد، باب فضل العیادۃ علی وضو،ترمذی، ابن حبان، ابن ماجہ ، مسلم کتاب البر، بات فضل عیادۃ المریض ابو داؤد، باب الدعاء للمریض عندالعیادۃ، ابو داؤد، کتاب الجنائز،ترمذدی ابو اب الطب معجم ۳۵، باب تطیب نفس المریض)

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مریض سے کہا جائے کہ آپ فکر نہ کریں، انشاء اللہ آپ اچھے ہوجائیں گے۔ آپ زندہ رہیں گے۔ تعلیم یہ دی گئی ہے کہ مریض کے سامنے اس کے دل کو خوش کرنے والی باتیں کی جائیں۔ ایسی باتیں نہ کی جائیں جو اس کے دل کو تکلیف پہنچانے والی ہوں یا اس کے فکر و اندیشہ میں اضافہ کرنے والی ہوں۔ مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ عیادت کرنے والے شاید بے شعوری کی حالت میں اس تعلیم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر میں کسی کی عیادت کیلئے جاؤں اور اس سے کہوں کہ میرے فلاں عزیز اسی مرض میں مرے تھے؟ آپ غو کریں کہ اس بات سے مریض کا دل خوش ہوگا یا اس کے فکر و اندیشہ میں اضافہ؟
مریض کو خوش کرنے کی ایک عملی تدبیر یہ بھی بتائی گئی ہے:
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”عیادت مریض کی تکمیل یہ ہے کہ تم میں کا کوئی شخص اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر یا یہ فرمایا کہ اس کے ہاتھ پر رکھے اور پوچھے کہ مزاج کیسا ہے؟ اور تمہارے سلام کی تکمیل تمہارے درمیان مصافحہ ہے“۔ (جامع ترمذی، ابواب الاستئذان، باب ماجاء فی الصافحۃ معجم 31)
اس عمل سے مریض سمجھتا ہے کہ عیادت کرنے والا شخص اس کا ہمدرد اور بہی خواہ ہے اور واقعی یہ چاہتا ہے کہ مریض کو صحت حاصل ہوجائے۔ اس خیال سے اس کا دل خوش ہوتا ہے۔
مریض سے دعا کی درخواست: پریشان حال لوگوں کی دعائیں اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ حالت مرض میں مومن صابر کی طرف اللہ کی رحمت متوجہ ہوتی ہے، اس لئے اس کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مریض سے دعا طلبی کی تعلیم بھی دی گئی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مریضوں کی عیادت کرو اور ان سے کہو کہ وہ تمہارے لئے دعا کریں کیونکہ بیمار کی دعا قبول کی جاتی ہے اور اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ (الترغیب والترہیب، بحوالہ طبرانی)
جس شخص کے گناہ بخش دیئے گئے ہوں، اس کی دعاؤں کی مقبولیت کی توقع بڑھ جاتی ہے۔
مریض کے پاس بلا ضرورت دیر تک بیٹھنا صحیح نہیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیادت ’فواقِ ناقہ‘ کے برابر ہونی چاہئے اور سعید ابن المسیب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ عیادت کا افضل طریقہ یہ ہے کہ عیادت کرنے والا جلد اُٹھ کھڑا ہو۔ (مشکوٰۃ الصابیح، کتاب الجنائز بحوالہ بیہقی)
دوبار اونٹنی کا دودھ دوہنے کے درمیان کی مدت کو ’فواقِ ناقہ‘ کہتے ہیں۔ اس حدیث میں جو تعلیم دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ عیادت کے موقع پر بلا ضرورت دیر تک مریض کے پاس بیٹھنا صحیح نہیں ہے۔ بعض اوقات اس سے خود مریض کو تکلیف پہنچتی ہے اور بعض اوقات اہل خانہ کو زحمت ہوتی ہے۔ البتہ اگر مریض خود خواہشمند ہو اور اہل خانہ کو بھی کوئی زحمت نہ ہو تو دیر تک بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔