محمد خورشید اختر صدیقی (بیدر)
عید کا لفظ ’’عود‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی لوٹ آنا ہے اسی لئے ہر سال ہم خوش نصیب اُمتیوں کیلئے یہ دو دن لوٹ آتے ہیں یعنی ایک عیدالفطر دوسرا عیدالضحیٰ ، اسی مناسبت سے اس کو عیدسعید بھی کہا گیا ہے ۔ فطر کے معنی لغت میں روزہ کُشائی کے ہیں چوں کہ رمضان المبارک کے مُتبرک ماہ میں ہم اور آپ ایک ماہ تک صوم و صلوٰۃ کی تکمیل انتہائی پابندی اور صبر و استقلال سے کرتے ہیں اور کامل ایک ماہ کے بعد پہلا دن عید کا ہوتا ہے اسی لئے اس دن کو ’’عیدالفطر‘‘کہا جاتا ہے ۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کے تہواروں میں جہاں خوشی و مسرت کے جلوے نظر آتے ہیں وہیں اپنے پروردگار عالم کی عبادت اور مخلوق کی خدمت کے پہلو بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس دور میں اہل مدینہ دورِ جہالت سے ہی سال میں دو دن خوشی مناتے تھے ۔ حضور پرنور ﷺ نے ان دو دنوں کی بجائے عیدالفطر اور عیدالضحیٰ کے موقع پر اہل مدینہ کو خوشی منانے کا حکم فرمایا ، کیونکہ اس عید سعید کے دن خدا کا بندہ اپنے رب کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر بجالاتا ہے ۔ بندہ کا قلب جذبہ تشکر سے بھرجاتا ہے اور اس کا سر اﷲ رب العزت کی کبریائی کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔
ہجرت کے دوسرے سال روزے فرض ہوئے کیونکہ عیدالفطر کا جشن روزوں سے متعلق ہے لہذا پہلی عید رسول کونین ﷺ کو دیکھنے والوں اور فیض پانے والوں نے ہجرت کے دوسرے سال ہی منائی ۔ اس وقت سے آج تک عید کی خوشیاں منانے کا سلسلہ جاری ہے اور ساری دُنیا کے مُسلمان عید سعید ایک خاص جذبہ کے تحت مناتے ہیں۔
عیدالفطر ، جو مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار ہے وہ صرف رمضان المبارک میں روزوں سے فارغ ہونے کی خوشی اور عالم اسلام کی پہلی عظیم فتح کی بھی یادگار ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’عید کے دن غریبوں کو خوشحال اور غنی کرو‘‘۔ اسی لئے صدقہ فطر کی ادائیگی ہر صاحب نصاب مُسلمان پر واجب ہے ۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے خوشی کی ہر وہ تقریب جس میں غرباومساکین اور مجبور و نادار شریک نہ ہوں۔ اﷲ تعالیٰ کی نظر میں ناپسندیدہ ہے ۔ حضور انور ﷺ کا فرمان ہے کہ روزہ داروں کی تمام عبادات اس وقت تک زمین و آسمان کے درمیان معلق اور بارگاہ ایزدی میں غیرمقبول رہتی ہیں ، جب تک کہ وہ (روزہ دار ) صدقہ فطر ادا نہیں کردیتے جو محض غریبوں کا حق ہے پھر اس کے بعد بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی نیازمندی پیش کرنے کیلئے عیدگاہ پہنچ کر شاداں و فرحاں نماز دوگانہ ادا کرکے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرتا ہے ۔
عیدالفطر کے اس جشن کو مسرت ، مساوات اور اتحاد کا پیغامبر بھی کہا گیا ہے کیونکہ بلاتفریق و امتیاز اس ( رب کی ) بارگاہ بے کس پناہ میں شاہ و گدا، امیر و غریب، نیک و بد چھوٹا و بڑا سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں جو لوگ عید کو اسلامی اخوت و محبت اور منشائے قدرت کے مطابق مناتے ہیں وہ رحمت خداوندی کے اُمیدوار بن سکتے ہیں۔ مقدس و بابرکت عید سعید کا دن ملت اسلامیہ کیلئے بھائی چارگی ، یکجہتی ، اخوت و محبت مساوات ، اتحاد اور جشن عیدالفطر دراصل روح کی بیداری اور عملی مظاہرے کا دن ہے۔ یہ یوم مقدس روٹھے ہوئے کو منانے اور بچھڑے ہوئے کو ملانے کیلئے ہے ۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’جب لوگ عیدالفطر کے دن نماز کیلئے عیدگاہ جاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ ان پر خاص توجہ فرماتا ہے اور کہتا ہے اے میرے بندو ! تم نے میرے ہی لئے روزہ رکھا میرے ہی لئے نماز پرھی اب تم بخشش کی خلعت لے کر جاؤ ‘‘۔
مومن کی عید اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔ مومن عیدگاہ جاتے ہیں تو اس کے سرپر ہدایت کا تاج ہوتا ہے ۔ ان کی نگاہوں میں عبرت اور فکر جلوہ گر ہوتی ہے کانوں سے حق بات سنتے ہیں ، زبان سے خدا کی توحید بیان کرتے ہیں ۔ ان کے دلوں میں یقین اور معرفت کا نور ہوتا ہے ، ان کے کندھوں پر اسلام کی چادر ہوتی ہے ، کمر پر بندگی کا بند باندھتے ہیں ۔ مومن عاجزی اور انکساری کا خوگر ہوتا ہے اسی لئے اﷲ تعالیٰ اسے قبولیت کا شرف بخشتا ہے اور اسے بہشت اور عزت والے گھر میں داخل فرماتا ہے ۔