مرسلہ : عبداﷲ محمد عبداﷲ
حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کے لئے پیش کرکے اطاعت و فرماں برداری، دین پر کامل استقامت اور جاں نثاری کی عظیم تاریخ رقم کی۔ اسوۂ ابراہیمی کی اتباع ہی نجات کی کلید اور کامیابی کی دلیل ہے۔
عید الاضحی کے آتے ہی کئی یادیں، جذبے اور ولولے تازہ ہوجاتے ہیں۔ عشق و وفا کے سرمدی زمزموں کی صدائے بازگشت چہارسو سنائی دیتی ہے۔ فرزندان اسلام کو اجتماعیت کا سبق یاد دلانے والے حج کے روح پرور اجتماع کا منظر سامنے آتا ہے۔ راہ وفا میں فانی دنیا قربان کرنے کا ایمان افروز موسم ہر سمت چھا جاتا ہے اور ایثار و قربانی کا احساس نشو و نما پاتا ہے۔ جب بطحا کی بے آب و گیاہ وادی میں ایک مقدس ہستی نے اپنی بیوی اور جگر گوشہ کو اللہ کے حوالے کرکے رخت سفر باندھا اور اس کی فرشتہ صفت اہلیہ کو معلوم ہوا کہ یہی اللہ کا حکم ہے تو وہ سر اطاعت خم کرتی ہوئی کہنے لگیں ’’جس حاکم کے حکم کی تعمیل ہورہی ہے، وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا‘‘۔
حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کا ایک مشکل ترین مرحلہ اکلوتے فرزند کی قربانی کا تھا۔ خواب میں انھیں اپنے فرزند حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم ملا، جس کی تعمیل میں کسی حیلہ و حجت کے بغیر باپ اور بیٹا روانہ ہوگئے۔ قرآن کریم کی سورہ الصافات میں اس کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے:
’’وہ لڑکا جب آپ کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر تک پہنچ گیا تو (حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں، سو تم بھی سوچ لو، تمہاری کیا رائے ہے؟۔ وہ بولے ابا جان! جو حکم آپ کو دیا گیا ہے اسے کر ڈالئے، آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے اللہ کا حکم تسلیم کرلیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا تو ہم نے ندا دی کہ تم نے خواب سچ کردکھایا، ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ تھا بھی بڑا امتحان۔ ہم نے ایک عظیم ذبیحہ فدیہ میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا اور آنے والی نسلوں میں ان کا ذکر خیر چھوڑا۔ سلام ہو ابراہیم پر، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ بلاشبہ وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے‘‘۔
حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ شیطان نے تین مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس موقع پر بہکانے کی کوشش کی، لیکن آپ نے ہر بار سات کنکریاں مارکر اسے بھگا دیا۔ وفا اور سر تسلیم خم کرنے کی اس تاریخ ساز کامیابی کی یادگار کے طورپر وادی منٰی میں حجاج کرام اور دنیا بھر میں عام مسلمان ہر سال اس (قربانی) کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے اتارا گیا ایک مینڈھا ذبح کیا گیا۔ عید الاضحی میں قربانی کی یہ سنت ابراہیمی بھی اسی وقت سے چلی آرہی ہے۔ ایک موقع پر صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا ’’یہ قربانی کیا ہے؟‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’یہ تمہارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے‘‘ اور فرمایا کہ ’’استطاعت کے باوجود جو شخص قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کا رخ نہ کرے اور ان تین دنوں میں قربانی سے بڑھ کر کوئی دوسرا نیک عمل اللہ کو محبوب نہیں‘‘۔
رب کی بندگی کا تقاضہ یہ ہے کہ جو حکم دیا گیا، اس کی تعمیل کی جائے۔ مگر یہاں آکر بعض کور نگاہ نام نہاد دانشور راہ راست سے بھٹک جاتے ہیں۔ وہ شریعت کے ہر حکم کو خرد کے پیمانے سے ناپتے اور عقل کی کسوٹی سے پرکھتے ہیں۔ ان کی نظر اس واضح حقیقت کی طرف نہیں جاتی کہ حکم الہی کی تعمیل صرف اور صرف اس لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کا حکم ہے، خواہ عقل اس کی حکمتوں کا احاطہ کرسکے یا قاصر رہے۔ آتش نمرود میں کودنے کا کرشمہ عشق کا ہے، عقل تو محو تماشائے لب بام رہی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں عقل کے ترانوں کا نہیں، عشق کی نواؤں کا رنگ جمتا ہے۔