مولاناسید زبیر ھاشمی نظامی
عید الفطر ایک ایسی عظیم عید ہے کہ جس کی بہترین مثال کسی اور عید میں نہیں ملتی، اب اس عید کو عید اس لئے کہتے ہیں کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر خوشی اور شادمانی کو بار بار لاتا رہتا ہے ۔ اور یہ عید عود سے ہے جس کے معنی ہیںباربار لوٹ کرآنا۔بعض علمائے کرام اس کی وجہ تسمیہ یہ بتلائے ہیں کہ عید اس لئے کہاجاتا ہے کہ اس دن اﷲتعالی مسلمانوں سے یہ فرماتاہے کہ’’ ائے مسلمانو ! اب تم مغفور یعنی بخشے ہوئے ہیں اور اس حالت میں تم سب اپنے اپنے گھر لوٹ جاؤ‘‘۔
ہم مسلمانوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے کہ اﷲتعالی نے ہم کو خیر امت بنایا ہے تو اس کا ہمیں حق اداکرنا چاہئے، حق یہ ہے کہ ہر حال میںاﷲتعالی کا شکر اداکرتے رہیں۔اﷲتعالی اور حضور ﷺ کی اطاعت وفرمابرداری کو ہمیشہ اپنے اوپر لازم کرلیں۔عبادت کریں تو اخلاص کے ساتھ ، روزے رکھیں تومولا کی رضا کیلئے تو ایسی حالت میں عیدالفطر ہمارے حق میں عید سعید بن جائے گی۔
حضور نبی اکر م صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے اور لوگ عیدگاہ کی طر ف جاتے ہیں تواﷲسبحانہ وتعالی ان کی طر ف توجہ فرماتا ہے‘‘ اور یہ ارشاد فرماتاہے کہ ائے بندو!تم ماہِ رمضان میں میرے لئے روزے رکھے تھے ، نمازیں پڑھے تھے، اب تم اپنے گھر اس حالت میں واپس جاؤ کہ تم سب بخش دیئے گئے ہیں۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ عید الفطر کے دن کچھ نوش فرماکر نماز عید الفطر کے لئے عیدگاہ تشریف لے جاتے تھے۔ ترمذی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت ہے کہ عید کی نماز کے لئے حضور ﷺ پیدل تشریف لے جاتے اور جس راستے سے تشریف لے جاتے، اس سے واپس نہیں ہوتے، بلکہ دوسرا راستہ اختیار فرماتے تھے، تاکہ تمام مسلمانوں کا اتحاد بہت مضبوط ہوجائے۔
عید الفطر کی نماز کے بعد کی خصوصی دعاء میں لوگ جہاں اپنی عافیت، راحت اور مغفرت کے لئے دعاء کرتے ہیں، وہیں سارے عالم کے مسلمانوں کی راحت، عافیت، نجات، کامیابی اور شعور و بصیرت کی توفیق کی بھی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اہل ایمان اور مسلمان سب کے حق میں دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ عید کی نماز کے لئے حاضر ہونے والے ان بندوں سے خطاب ہوتا ہے کہ ’’اے میرے بندو! جو تم کو مانگنا ہے مانگو، تم آخرت کی جو بھی چیز مانگو گے میں ضرور تم کو عطا کروں گا اور دنیا کے متعلق بھی جو تم دعاء کرو گے، اس کے بارے میں خود تمہاری ہی مصلحت پر نظر کرکے تمہارے لئے بہتر فیصلہ کروں گا۔ میرے زور و قوت کی قسم! تم جب تک میرا اور میرے احکام کا خیال رکھو گے، میں تمہاری لغزشوں کی ستاری کرتا رہوں گا اور میرے عزت و جلال کی قسم! میں تمھیں مجرموں کے سامنے رسواء نہیں کروں گا، اب تم بخشے بخشائے گھروں کو واپس ہوجاؤ۔ تم نے ماہ رمضان میں مجھے راضی کردیا اور میں تم سے خوش ہوں‘‘۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج عید کے مرادوں سے دامن بھر لیتے ہیں اور وہ بدنصیب ہیں جو آج اس موقع پر ربانی خزانوں سے لٹائی ہوئی نعمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔
عید کے دن عیدگاہ میں نماز ادا کرنے میں بھی کئی خوبیاں اور مصلحتیں موجود ہیں، ایک تو اس عظیم اجتماع کے روح پرور مظاہرہ کے ذریعہ دین کی عظمت و برتری اور شان و شوکت کے اظہار کا یہ مبارک موقع ملتا ہے۔ احکام خدا و رسول کی تعمیل میں اطراف و اکناف کے مسلمان ایک مرکز پر جمع ہوکر بطور تشکر اپنے معبود حقیقی کے آگے سرنیاز کو خم کردیتے ہیں۔
نماز عیدالفطر کے اہم مسائل
۱۔عید کی تعریف : (۱) عید کہتے ہیں خوشی کے دن کو ‘ عیدین سے دو عید یعنی عید الفطر اور عیدالاضحیٰ مراد ہیں ۔ (۲) عید الفطر اس عید کا نام ہے جو ماہ رمضان المبارک کے اختتام پر غرہ شوال المکرم کو ہوتی ہے جس میں نماز کے علاوہ صدقہ فطر بھی دیا جاتا ہے ۔
۲۔ نماز عید کا حکم : عید کی نماز واجب ہے اور انہی پر واجب ہیں جن پر جمعہ واجب ہے ۔
۳۔ نماز عید الفطر کے شرائط : (۱) نماز عید کے شرائط وہی ہیں جو نماز جمعہ کے ہیں مگر اتنا فرق ہیکہ نماز جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور نماز عیدین میں سنت اور جمعہ کا خطبہ نماز سے پہلے پڑھنا چاہئے اور عیدین کا خطبہ نماز کے بعد ۔ جمعہ میں اذان و اقامت دونوں ہیں اور عیدین میں نہ اذان ہے نہ اقامت۔
۴۔ نماز عیدالفطر کے آداب: عید کے دن حسب ذیل امور مسنون اور مستحب ہیں ۔
٭ اپنی آرائش کرنا ( اصلاح بنوانا ‘ ناخن کتروانا ) ٭ غسل کرنا٭ مسواک کرنا ٭عمدہ سے عمدہ لباس جو موجود ہو پہننا ٭خوشبو لگانا ٭ عید کے دن فجر کی نماز محلہ کی مسجد میں پڑھنا ٭ عیدگاہ میں بہت سویرے جانا ٭ عید الفطر میں عیدگاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر دے دینا ٭ عید الفطر میں پہلے کھجور یا کوئی میٹھی چیز کھا کر نماز کو جانا (اگر کھجور ہوں تو طاق عدد میں کھائے ) ٭عید کی نماز خاص عیدگاہ میں جا کر ادا کرنا ٭ عید گاہ کو ایک راستہ سے جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا ٭ عیدگاہ کو پیادہ پا جانا (بشرطیکہ جاسکے ) ٭ راستہ میں تکبیر (اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ ) پڑھتے ہوئے جانا۔ ٭ عید الفطر میں تکبیر آہستہ پڑھنا ۔ نیز خیرات کی زیادتی ‘ خوشی کا اظہار اورمبارکباد دینا مستحب ہے ۔
۶۔نماز عید الفطر کے رکعات و تکبیرات: (۱) نماز عیدکی دو رکعتیں ہیں (۲) عیدین کی نمازوں میں علاوہ معمولی تکبیروں کی ہر رکعت میں تین تین اس طرح ہر نماز میں چھ چھ تکبیرات عیدین واجب ہیں ۔ (۳) عید کے نماز کی دوسری رکعت میں رکوع کی تکبیر بھی واجب ہے ۔
۷۔ نمازعید الفطرکاطریقہ : نماز عیدین کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے نماز عید کی نیت کرے (نَوَیْتُ اَنْ اُصَلِّیَ رَکْعَتَیْ صَلٰوۃَ عِیْدِ الْفِطْرِ مَعَ سِتِّ تَکْبِیْرَاتٍ لِلّٰہِ تَعَالٰی ) ’’دو رکعت نماز عید الفطر ادا کرتا ہوں چھ تکبیروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے واسطے‘‘ امام امامت کی نیت کرے اور مقتدی اقتداء کی نیت کرے پھر تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لیںاور ثناء پڑھیں پھر (امام و مقتدی ہر دو) اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑ دیں ۔ ہاتھ چھوڑ کر اتنی دیر توقف کریں کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہہ سکیں ۔ پھر دوسری مرتبہ اسی طرح اللہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور چھوڑ دیں اور اسی قدر توقف کریں ‘ پھر تیسری مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھا کر ( اس دفعہ نہ چھوڑیں بلکہ ) باندھ لیں۔ پھر امام (آہستہ) اعوذ باﷲ اور بسم اﷲ پڑھ کر سورہ فاتحہ اور دوسری سورۃ جہر کے ساتھ پڑھے اور قاعدہ کے موافق رکوع و سجود وغیرہ کر کے دوسری رکعت شروع کرے ۔ جب دوسری رکعت میں قرأت (سورہ فاتحہ اور دوسری سورۃ ) ختم کرچکے تو امام و مقتدی ہر دو پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑ دیں اور تین تسبیح کے موافق توقف کریں۔ اسی طرح دوسری اور تیسری تکبیر کہتے ہوئے اور کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑتے جائیں ( یعنی تیسری تکبیر کے بعد بھی ہاتھ نہ باندھیں چھوڑے رہیں ) پھر بغیر ہاتھ اٹھائے چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائیں اور حسب قاعدہ نماز پوری کرلیں ۔ ختم نماز کے بعدامام منبر پر کھڑا ہو کر خطبہ پڑھے اور تمام لوگ خاموش بیٹھے خطبہ سنیں ۔ عیدمیں بھی دو خطبے ہیں اور دونوں کے درمیان بیٹھنا مسنون ہے۔ ( اقتباس: نصاب اہل خدمات شرعیہ، حصہ پنجم )
نوٹ: عید الفطر کی نماز سے قبل نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے ‘ خواہ گھر میں پڑھیں یا عیدگاہ میں البتہ نماز عید کے بعد گھر میں آکر نفل پڑھنا مکروہ نہیں بلکہ گھر میں آ کر چار رکعت پڑھنا مستحب ہے ۔
( اقتباس: نصاب اہل خدمات شرعیہ، حصہ پنجم )
zubairhashmi7@gmail.com