عید الفطر پر خریدی نہیں کی جائے گی ، غریبوں کو امداد اجر عظیم

,

   

غیر ضروری خریدی گویا معیشت کو تباہ کرنے کے برابر ، تاجرین کو مستحکم کرنے سے گریزکا مشورہ

حیدرآباد۔29اپریل(سیاست نیوز) عید کے لغوی معنی ہیں خوشی اور جاریہ سال ہمیں عید کی خوشیاں منانے سے زیادہ اللہ رب العزت نے بانٹنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن اور ہندستان میں جاری لاک ڈاؤن کی صورتحال میں ہندستانی مسلمانوں کو عید کے موقع پر نئے کپڑوں کے بجائے عمدہ کپڑوں کے استعمال کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ کورونا وائرس کے سبب پیدا شدہ حالات میں جو صورتحال ہے اس کے سبب معاشرہ کا ہر طبقہ پریشان حال ہے اور ان حالات میں عید کے موقع پر نئے کپڑوں کی خریدی سے زیادہ بہتر ہے کہ مسلمان اپنے پڑوسی کاخیال کرے اور پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے معاملہ میں کوتاہی نہ کریں۔ کورونا وائرس کے ذریعہ جو حالات پیدا ہوئے ہیں اور جن حالات کا شکار عوام ہیں ان کو دیکھتے ہوئے شہر حیدرآباد ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے کئی شہروں سے سرکردہ افراد نے عید الفطر کے موقع پر کی جانے والی خریداری سے اجتناب کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس رمضان المبارک کے دوران نہ صرف عید کے نئے کپڑوں کی خریدی ترک کی جائے گی بلکہ عید کے موقع پر جو اخراجات ہوا کرتے ہیں ان اخراجات کو مستحقین میں تقسیم کرتے ہوئے عید منائی جائے گی کیونکہ عید کے موقع پر نئے کپڑے پہننے سے غریب پڑوسی اور اس کے افراد خاندان کی بھوک نہیں مٹے گی اسی لئے لاک ڈاؤن اگر ختم بھی ہوجاتا ہے کہ اس مرتبہ بازار کا رخ کرنے کے بجائے مستحق کی تلاش کرتے ہوئے اس کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ مستحقین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی ضرورتوں کو محدود کرتے ہوئے غذائی ضرورت اور ناگزیر اشیاء تک محدود رکھیں اور اس رمضان المبارک کے دوران کپڑوں یا دیگر اشیاء کو اپنی ضرورتوں کی فہرست میں شامل نہ رکھیں ۔ماہ رمضان المبارک کے دوران کپڑوں کی تقسیم کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ اس سلسلہ کو ترک کریں کیونکہ نئے کپڑوں سے زیادہ اہم غذائی ضرورتیں ہیں جن کا پورا کیا جانا ضروری ہے اسی لئے متمول طبقہ کی جانب سے بھی اس بات کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگر اس ماہ مقدس کے دوران لاک ڈاؤن ختم کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں کوئی کپڑوں کی خریداری نہیں کی جائے گی

اور نہ ہی عید کی خوشیاں نئے کپڑے پہن کر منانے کی کوشش کی جائے گی بلکہ جو کپڑے موجود ہیں ان میں سب سے عمدہ کپڑوں میں عید منانے کو ترجیح دی جائے گی۔ کورونا وائرس کی وباء نے مسلمانوں کو اپنے حالات کو بہتر بنانے کا ایک زریں موقع فراہم کیا ہے اور اگر مسلمان ایسے موقع سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے ملی حالات میں سدھار لانے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسی صورت میں مسلمانوں کے حالات اجتماعی طور پر تبدیل ہوسکتے ہیں اور ان کے نظریہ میں تبدیلی لانے کا یہ موقع بے انتہاء فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے ۔ شہر حیدرآباد میں کے علاوہ ملک کے کئی سرکردہ شہروں میں کپڑے کے ٹھوک تاجرین اس ماہ مقدس کے دوران سال بھر کا کاروبار کرتے ہیں اور ان کا کہناہے کہ وہ جاریہ رمضان کے لئے بھی خریداری کر چکے ہیںاور اگر رمضان المبارک کے دوران حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کو ختم نہیں کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں ان ٹھوک تاجرین کا کروڑہا روپئے کا نقصان ہوگا لیکن مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ اگر حکومت ان تجارتی اداروں کے دباؤ میں ماہ رمضان المبارک کے درمیان لاک ڈاؤن کے خاتمہ کا فیصلہ کرتی ہے تو ایسی صورت میں بازاروں سے ہمیں رضاکارانہ طور پر دوری بنائے رکھنی چاہئے اور غیر ضروری اشیاء کی خریداری کے ذریعہ اپنی معیشت کو متاثر کرتے ہوئے تاجرین کی معیشت کو مستحکم کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور اس رمضان المبارک کے دوران پڑوسی اور ضرورتمند کی ضرورت کو پورا کرتے ہوئے رضائے الہی کے حصول پر توجہ کرنی چاہئے ۔