عید الفطر کی روحانی شادمانیوں کا حقدار کون؟

   

ڈاکٹر عبد الخلیل کشش (شکرنگر)
رمضان المبارک کی آخری شام کا یہ عجیب کرشمہ ہے کہ کروڑوں آنکھیں نیلگوں آسمان پر ماہ نو کی جستجو کرنے لگتی ہیں۔ ان ڈھونڈنے والوں میں بوڑھے بھی ہوتے ہیں، جوان بھی، بچے بھی اور خواتین بھی۔ جب وہ ماہ نو اپنے چہرے سے بادلوں کا نقاب الٹ دیتا ہے تو ڈھونڈنے والی آنکھیں خوشیوں میں ڈوب جاتی ہیں اور وفور مسرت سے سارا غم و الم اور ناکامی و نامرادی کافور ہو جاتی ہے۔ غرض یہ بڑا پرکیف منظر ہوتا ہے اور یہ ہلال اپنی نقرئی روشنی سے دلوں کو بڑی ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ چاند تو ہر مہینہ نمودار ہوتا ہے، لیکن ہر چاند مسلمانوں کے قلب و نگاہ کو اتنا محصور نہیں کرتا۔ یہ ہلال دراصل اس لئے زیادہ جاذب نظر اور مسحور کن ہوتا ہے کہ یہ عید کا پیغام لاتا ہے اور عید کا دن بڑی اہمیت کا حامل ہوتا، جو اہل ایمان کو مژدہ جانفزا سناتا ہے اور اپنی زبان حال سے یہ اعلان کرتا ہے کہ اے ایمان والو! سن لو کہ آج اللہ تعالی کے وہ خصوصی انعامات جو پچھلے تیس دن تک جاری رہے تھے، وہ ختم ہو رہے ہیں۔
یہ عید کیا ہے؟ اور آج مسلمانوں کے قلوب سے مسرت و شادمانی کے چشمے کیوں ابل رہے ہیں؟ اور یہ امر بھی قابل غور ہے کہ نوازشات ربانی اور انعامات خداوندی کے حقدار کون لوگ ہیں۔ عید کی مبارکباد کے حقیقی مستحق وہ لوگ ہیں، جنھوں نے رمضان المبارک میں روزے رکھے، قرآن مجید کی ہدایت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی فکر کی، اس کو پڑھا، سمجھا اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی اور تقویٰ کی اس تربیت کا فائدہ اٹھایا، جو رمضان المبارک ایک مؤمن کو دیتا ہے۔ قرآن مجید میں رمضان کے روزوں کی جو مصلحتیں بیان کی گئی ہیں، ان میں ایک یہ ہے ’’تاکہ مسلمانوں میں تقویٰ پیدا ہو‘‘۔
دوسرا یہ کہ مسلمان اس نعمت کا شکر ادا کریں، جو اللہ تعالی نے رمضان میں قرآن مجید نازل کرکے ان کو عطا کیا ہے۔ دنیا میں اللہ جل شانہ کی سب سے بڑی نعمت نوع انسانی پر اگر کوئی ہے تو وہ قرآن مجید کا نازل کرنا ہے۔ قرآن مجید وہ نعمت ہے، جو انسان کی روح کے لئے، اس کے اخلاق کے لئے اور درحقیقت اس کی اصل انسانیت کے لئے نعمت عظمی ہے۔ ایک مسلمان اللہ تعالی کا شکر اسی صورت میں صحیح طورپر بجالاسکتا ہے، جب کہ وہ اس کے دیئے ہوئے رزق پر بھی شکر ادا کرے اور اس کی دی ہوئی اس نعمت ہدایت کے لئے بھی شکر ادا کرے، جو قرآن کی شکل میں اس کو دی گئی ہے۔ قرآن سرچشمہ ہدایت ہے، دل سے اس کو رہنمائی کا اصل مرجع مانیں اور عملاً اس کی رہنمائی کا فائدہ اٹھائیں۔ حقیقت میں مبارکباد کا مستحق ہے کہ رمضان المبارک کا ایک حق جو اس پر تھا، اسے اس نے ٹھیک ٹھیک ادا کردیا۔ رمضان المبارک کے روزوں کا دوسرا مقصد جس کے لئے وہ آپ پر فرض کئے گئے ہیں، یہ ہے کہ آپ کے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ اگر آپ روزے کی حقیقت پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تقویٰ پیدا کرنے کے لئے اس سے زیادہ کارگر ذریعہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالی کی نافرمانی سے بچے اور اس کی فرماں برداری اختیار کریں۔
روزہ مسلسل ایک مہینہ تک آپ کو اسی چیز کی مشق کراتا ہے، جو چیزیں آپ کی زندگی میں عام طورپر حلال ہیں۔ وہ بھی اللہ تعالی کے حکم سے روزے میں حرام ہو جاتی ہیں اور اس وقت تک حرام رہتی ہیں، جب تک کہ اللہ ہی کے حکم سے وہ حلال نہ ہو جائیں۔اللہ ہمیں عید کی سچی خوشیاں نصیب کرے ۔ آمین
جو خوش نصیب عید کی مبارکباد اور خوشی کے واقعی حقدار ہیں، ان کا ایمان افروز حال خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنئے اور آرزو کو پورا کرنے میں لگ جائیے کہ آپ کا شمار بھی انھیں لوگوں میں ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب عید کی صبح نمودار ہوتی ہے تو اللہ تعالی اپنے فرشتوں کو ہر شہر اور ہر بستی کی طرف روانہ کردیتا ہے۔ فرشتے زمین پر اترکر ہر گلی اور ہر راستے کے موڑ پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور پکارتے ہیں اور ان کی پکار ساری مخلوق سنتی ہے، مگر انسان اور جن نہیں سن پاتے۔ وہ پکارتے ہیں اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگو! نکلو اپنے گھروں سے اور چلو اپنے پروردگار کی طرف۔ تمہارا پروردگار بہت ہی زیادہ دینے والا اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف کرنے والا ہے‘‘۔ جب مسلمان عیدگاہ کی طرف جانے لگتے ہیں تو خدائے عز و جل اپنے فرشتوں سے مخاطب ہوکر پوچھتا ہے ’’میرے فرشتو! اس مزدور کا کیا صلہ ہے، جس نے اپنے رب کا کام پورا کیا‘‘۔ فرشتے کہتے ہیں ’’اے ہمارے معبود! اس مزدور کا صلہ یہ ہے کہ اسے بھرپور مزدوری دی جائے‘‘۔ اس پر خدا کا ارشاد ہوتا ہے ’’فرشتو! تم سب گواہ ہو جاؤ کہ میں نے اپنے ان بندوں کو جو ماہ رمضان کے پورے روزے رکھے اور تراویح پڑھتے رہے، اس کے صلہ میں اپنی خوشنودی سے نواز دیا اور ان کی مغفرت فرما دی‘‘۔ پھر خدا اپنے بندوں سے کہتا ہے ’’میرے پیارے بندو! مانگو مجھ سے جو کچھ مانگنا چاہتے ہو، مجھے میری عزت کی قسم! مجھے میرے جلال کی قسم! آج عید الفطر کے اس اجتماع میں تم اپنی آخرت بنانے کے لئے مجھ سے مانگو گے عطا کروں گا اور اپنی دنیا بنانے کے لئے جو چاہو گے اس میں بھی تمہاری بھلائی کو پیش نظر رکھوں گا۔ جب تک تم میرا دھیان رکھو گے میں تمہارے قصوروں پر پردہ ڈالتا رہوں گا۔ مجھے میری عزت کی قسم! مجھے میرے جلال کی قسم! میں تمھیں مخلوق کے سامنے ہرگز ذلیل و رسوا نہیں کروں گا۔ جاؤ تم اپنے گھروں کو بخشے بخشائے لوٹ جاؤ۔ تم مجھے راضی کرنے میں لگے رہے اور میں تم سے راضی ہو گیا‘‘۔
یہ پیغام شادمانی ان نیک بندوں کے لئے ہے، جو مہینہ بھرتک طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرتے رہے، جنھوں نے اپنے کاشانہ دل کو تمام کثافتوں اور آلائشوں سے پاک کیا، جنھوں نے اطاعت و بندگی کے احساس سے اپنی روح کو گرم کیا اور جنھوں نے اخلاق و ہمدردی اور صبر و استقامت کی صفات سے اپنی ذات کو آراستہ کیا۔ یہ نوازشات و انعامات صرف ان کے لئے ہیں، جنھوں نے ٹھیک ٹھیک اللہ تعالی کی رضا کی تلاش میں پورا مہینہ صبر کیا۔ اس کے برعکس وہ لوگ ہیں، جنھوں نے روزہ تو رکھا لیکن اس سے اپنی روح کو تازگی نہ بخشی، روزے کا احترام نہیں کیا اور گناہوں سے بچنے کی سعی نہیں کی۔ اپنی آنکھ کو، اپنی زبان کو، اپنے کان کو، اپنے ہاتھ پاؤں کو اور اعضاء و جوارح کو محفوظ نہیں رکھا۔ حدیث شریف میں ہے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ ان کو ان کے روزے سے سواء بھوکا اور پیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔
عید الفطر ایسا دن ہے کہ جس میں ہر مسلمان اپنے غریب اور مسکین بھائیوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرتا ہے اور ایک خاص رقم صدقہ فطر کی شکل میں حقداروں کو دیتا ہے۔ چوں کہ رمضان المبارک کی عبادت اور روحانی تربیت کا مقصد مسلمانوں کی تمام خواہشات کو حکم الہی کے تابع بنانا تھا، اس لئے روحانی تربیت کے بعد مسرت و انبساط کا اظہار بھی عین متقضائے فطرت تھا۔ چنانچہ اس مسرت و شادمانی کے لئے جو دن موزوں سمجھا گیا، وہ عید کا دن تھا۔ اسلام کی فطری تعلیمات نے ہر جگہ غریبوں، مسکینوں اور بے نواؤں کے حقوق کی محافظت کی ہے۔ عید کی خوشیاں سب کے لئے ہیں، امیر بھی خوشیاں مناتے ہیں اور غریب بھی، کالے اور گورے بھی، بچے اور عورتیں بھی۔ عید کا دن دراصل یوم تشکر ہے۔ یہ صبح صالح بندوں کو یہ مژدہ سنا رہی ہے کہ وہ اٹھیں اور اپنا اجر و انعام حاصل کریں۔ اللہ تعالی انھیں اپنے انعامات سے سرفراز کرنا چاہتا ہے، اس لئے انھوں نے رمضان کے ہر لمحہ میں رضائے الہی کا خیال رکھا اور اپنے اوقات ذکر الہی میں لگائے اور پوری زندگی، سپردگی کے لئے وقف کردیں۔ یہ پیغام شادمانی ان نیک بندوں کے لئے ہے، جو مہینہ بھر تک طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا بھی۔ یہ مبارکباد کا دن بھی ہے اور تعزیت کا بھی۔ مبارکباد کا دن ان خوش نصیبوں کے لئے ہے، جن کا رمضان شکر گزاری کی حالت میں گزرا اور تعزیت کا دن ان کم نصیبوں کے لئے ہے، جن کا رمضان اس طرح گزرا کہ اس کی برکتوں سے محروم رہے۔ بے شک ایسے لوگوں کے لئے عید ’’وعید‘‘ کا دن ہے۔ یہ مبارکباد کے نہیں بلکہ تعزیت کے مستحق ہیں۔
حدیث شریف میں اس کو یوم الجائزہ یعنی انعام کا دن قرار دیا گیا ہے، لہذا یہ دن ہم سے یہ جائزہ لینے کا تقاضہ کرتا ہے کہ کیا ہم نے اعمال و اخلاق کے اس تربیتی کورس میں واقعی کامیابی حاصل کی ہے۔ کیا واقعی اللہ تعالی کے ساتھ ہمارے تعلق میں کچھ اضافہ ہوا ہے؟، کیا ہم نے بندوں کے حقوق کو پہچاننا شروع کردیا ہے؟۔ کیا ہمارے دل میں امانت، دیانت، ضبط نفس اور جہد و عمل کے جذبات پیدا ہوئے ہیں؟۔ کیا ہم نے چار سو پھیلی ہوئی معاشرتی برائیوں کو مٹانے اور ان سے اجتناب کرنے کا کوئی عہد تازہ کیا ہے؟۔ کیا ہمارے سینے میں ملک و ملت کی فلاح و بہبود کا کوئی ولولہ پیدا ہوا ہے؟۔ کیا ہم نے آپس کے جھگڑوں کو مٹاکر اس طرح متحد ہونے کا کوئی ارادہ کیا ہے؟، جس طرح ہم عید میں یکجا نظر آتے ہیں۔ اگر اپنے گریباں میں جھانکنے اور انصاف کے ساتھ اپنا جائزہ لینے کے بعد کسی کو ان سوالات کا جواب اثبات میں ملتا ہے تو وہ واقعی عید کی روحانی شادمانیوں کا حقدار ہے۔