مولانا حافظ سید مدثر حسینی
تہوار قوم کی علامت اور پہچان ہیں، اس سے قوم کی ثقافت اور مذہب کی عکاسی ہوتی ہے۔ عید کا انعام ان لوگوںکے لئے اللہ تعالی نے مقرر فرمایا ہے، جو خوف خدا رکھتے ہیں۔ اس کی خوشنودی اور معرفت حاصل کرنے کے لئے رات کو قیام اور دن میں روزہ رکھتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دونگا‘‘۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ روزے صرف اور صرف اللہ رب العز ت کو خوش کرنے کے لئے اور خود روحانی خوشی حاصل کرنے کے لئے ہیں۔رمضان المبارک کے ایک ماہ کے بعد روزہ داروںکو ان کی محنت کا صلہ ملتا ہے، انعام ملتا ہے اور اللہ کی رحمت ان کے سروں پر سایہ فگن ہوتی ہے۔ عید الفطر ہر مسلمان بڑے جوش وجذبہ کے ساتھ مناتا ہے، لیکن اصل خوشی کے حق دار صرف وہ لوگ ہیں، جو روزے اور نماز کی پابندی کرتے ہیں، نیک اعمال کرتے ہیں اور دوسروں کی خوشی میں خود اور ان کو اپنی خوشی میں شریک کرتے ہیں۔’’عید‘‘ کا لفظ عود سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں بار بار آنا اور’’ فطر ‘‘ افطار سے مشتق ہے۔ یہ روز سعید مسلمانوں کے لئے مسرت اور شادمانی کا پیغام لاتا ہے، یہ وہ دن ہے جس کو رحمت کا دن کہا گیا ہے کہ اس دن روزہ داروں کے لئے ہر طرف خوشی کا سماں ہوتا ہے۔ اسلام میں سب سے پہلے عید کی نماز ہجرت کے پہلے سال ادا کی گئی۔ عید کی مشروعیت کے حوالے سے ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت اہل مدینہ کے لئے دو دن کھیل کود کے مقرر تھے، تو نبی اکرمﷺنے فرمایا: ’’اللہ تعالی نے ان دو دنوں سے بہتر دو دن تمہیں عطا کردیا، عید الفطر اور عید الاضحی‘‘۔ (ابو داؤد)
عید الفطر کے دن کی بہت فضیلت ہے اور یہ دن دعاؤںکی قبولیت کا دن ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالی اپنے بندوں پر اپنے ملائکہ کے سامنے فخرکرتا ہے اور انہیں مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو! اُس اجیر (مزدور) کی جزا کیا ہے؟ جس نے اپنے سپرد کام پورا کردیا؟۔ فرشتے عرض کرتے ہیںکہ اے ہمارے پروردگار! اس کی جزا یہ ہے کہ اس کی مزدوری اسے پوری پوری دیدی جائے۔ پھر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے میرے ملائکہ! میرے ان بندوں نے اپنا وہ فرض ادا کردیا ہے، جو میں نے اُن پر عائد کیا تھا۔ پھر اب یہ گھروں سے عید کی نماز ادا کرنے اور مجھ سے گڑگڑا کر مانگنے کے لئے نکلے ہیں۔ قسم ہے میری عزت اور میرے جلال کی، میرے کرم اور میری بلند شان کی اور میرے بلند مقام کی، میں ان کی دعائیں ضرور قبول کروںگا۔ پھر اللہ تعالی اپنے بندوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے جاؤ میں نے تمہیں معاف کردیا اور تمہاری برائیوںکو بھلائیوں سے بدل دیا ہے۔
وہب بن منبہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ عید کے دن شیطان مردود زور زور سے چیختا ہے اور اس کے سار ے حواری اس کے پاس جمع ہوجاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ اے ہمارے سردار! تجھے کس نے تکلیف پہنچائی ہے ہم اس کی ہڈیاں توڑ دیتے ہیں اور جس نے تجھے ناراض کیا ہم اسے گمراہ کردیں گے تو وہ کہتا ہے: ایسی کوئی بات نہیں، لیکن آج امت مسلمہ کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے، کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ عید الفطر کے دن ان تمام مومنوں کے گناہ معاف فرمادے گا، جو عید کی نماز کیلئے جمع ہوکر مغفرت طلب کریں گے، اس لئے عید گاہوں کے راستوں پر بیٹھ جاؤ اور لوگوں کو لہو و لعب میں مشغول کردو، انہیں شراب نوشی اور خواہشات نفسانی پورا کرنے پر لگادو، یہاں تک کہ اللہ تعالی ان سے ناراض ہو جائے اور ان کے گناہ نہ بخشے جائیں۔ لہذا عقل مند آدمی وہ ہے، جو عید کے دن خواہشات نفس اور منکرات سے اپنے آپ کو روکے رکھے اور اللہ تعالی کی اطاعت اور اس کی بندگی پر مداومت اختیار کرے۔