بڑی ہی سادہ ورنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اسکی حسینؓ ابتداء ہیں اسمٰعیلؑ
عید قربان
آج عید قربان ہے ۔ آج کا دن ہمیں ایک عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے ۔ آج وہ دن ہے جب اللہ رب العزت کے ایک برگزیدہ پیغمبر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ رب العزت کے حکم پر اور اس کی رضامندی کیلئے اپنے عظیم فرزند حضرت سیدنا اسمعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا تہئیہ کرلیا تھا ۔ تاہم چونکہ اللہ رب العزت بے نیاز ہے اور وہ صرف نیتوں کو جانتا ہے اس لئے اس نے حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی خلوص نیت کو دیکھتے ہوئے رحم فرمایا اور عین وقت ذبح حضرت سیدنا اسمعیل علیہ السلام کو چھری کی دھار کے نیچے سے ہٹالیا اور ان کی بجائے ایک دنبہ جنت سے بھیج دیا ۔ آج اسی عظیم قربانی کی یاد میں اور بیت اللہ شریف کے حج کی تکمیل کے بعد ہم عید مناتے ہیں۔ آج کا دن ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ ہمیں اللہ رب العزت کی خوشنودی اور اس کی رضامندی کیلئے اپنی عزیز ترین شئے کو بھی قربان کرنے سے گریز نہ کریں۔ آج کے اس عظیم موقع پر ہمیں اپنے آپ کا محاسبہ کرنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کرنے کے معاملے میں کیا کچھ کرسکتے ہیں اور کیا مزید کرسکتے ہیں۔ ہمیں اپنی زندگیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم اللہ رب العزت کی عطا کردہ بیش بہا نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں اور پر تعینش اور من پسند زندگی گذارتے ہیں لیکن ہم اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ ہمیں اپنا سکون چین اور آرام پسند ہوتا ہے ۔ ہم اپنے اہل و عیال کیلئے ہر طرح کی آسائش فراہم کرنے کی فکر میںجٹے ہوئے ہیں لیکن ہم خود اپنے اہل و عیال کو اللہ رب العزت کے فرامین پر عمل کرنے کی تلقین نہیں کرتے حالانکہ ایسا کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ خود کو بھی عمل کرنا چاہئے اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس کی ترغیب دینی چاہئے ۔ اس معاملے میں ہم صفر ہیں۔ ہم جب خود احکام خداوندی پر عمل نہیں کرتے تو اپنے عیال کو کیا تلقین کرینگے کیا ترغیب دیں گے ۔ ہم نے عید الاضحی کو صرف جانوروں کی قربانی تک محدود کردیا ہے جبکہ حقیقت میں پیام قربانی ایک عظیم پیام ہے ۔
ہمیں اپنی زندگیوں کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو سدھارنے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں عید الاضحی کے پیام قربانی کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کو اپنی زندگیوں میں رائج کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنی تمام تر خامیوں اور کوتاہیوں کا انتہائی دیانتداری کے ساتھ جائزہ لیتے ہوئے ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں آج کے دن عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے تمام برائیوںاور کوتاہیوں کو دور کریں گے ۔ اللہ رب العزت کے فرامین پر عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرینگے ۔ آج ہم ذاتی انا پرستی کا سب سے زیادہ شکار ہوگئے ہیں۔ تکبر ہمارا شیوہ اور دنیا میں ہماری عزت کا ذریعہ بن گیا ہے جبکہ تکبر اور انانیت کو اسلام نے انتہاء سے زیادہ نا پسند کیا ہے ۔ آج ہم اس لعنت کا پہلے سے زیادہ شکار ہوگئے ہیں۔ آج ہم میں اجتماعیت کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ ہم اپنے عزیزوں اور پڑوسیوں کو کسی مشکل میں دیکھتے ہیں تو اپنا دامن بچانے کی زیادہ فکر کرنے لگ جاتے ہیں۔ مشکل وقت میں کسی کی مدد کرنے کیلئے آگے آنے کا جذبہ ہم میں ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ غریبوں اور یتیموں کی مدد میں ہم نے ہاتھ کھینچ لیا ہے ۔ اگر کوئی آج کے دور میں کسی کی مدد کرتا بھی ہے تو وہ صرف اللہ کیلئے نہیں کرتا بلکہ تشہیر کے جذبہ سے کرتا ہے اور ایسا کرنا بھی ایک گناہ عظیم ہے ۔ کسی کی مدد کرتے ہوئے تشہیر کو اختیار کرنا ان کی عزت نفس سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے اور ہم میں سے اکثر لوگ اس کے مرتکب ہوتے جا رہے ہیں۔
آج ہمیں اس بات کا عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں بہتری لائیں گے ۔ ہم اپنی زندگیوں کو اللہ رب العزت کے احکام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے ۔ ہم اللہ کی راہ میں اپنا انا کو قربان کریں گے ۔ ہم اللہ کی خاطر دوسروں سے حسن سلوک کریں گے ۔ ہم محض اللہ کیلئے اپنے اختلافات کو فراموش کریں گے ۔ ہم اللہ کیلئے دوسروں سے بدلے لینے کی سازشیں ترک کریں گے ۔ ہم اللہ کی خاطر اپنے آس پاس کے لوگوں کی مدد کریں گے ۔ یہ مدد خاموشی سے کرینگے اور تشہیر کرکے اللہ کا عذاب نہیں مول لیں گے ۔ جب تک ہم اپنی زندگیوں میں للہیت نہیں لائیں گے ہم سماج میں سرخرو نہیں ہونگے ۔ ہم اپنی زندگیوں میں ایسی تبدیلیاں لائیں گے تب ہی ہم قربانی کے اصل پیام کو سمجھ پائیں گے ۔
