عید پوچھتی ہے

   

لطیف آرزو کوہیری
فطرت انسانی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں ایسے ایام کی یاد کو روشن رکھنا چاہتا ہے، جنھیں قومی یا ملی لحاظ سے کوئی اہمیت یا افادیت حاصل ہو۔ تاریخ عالم پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہر قوم یا ہر ملت میں کوئی نہ کوئی ثبوت ملتا ہے۔ ہزارہا سال کی تاریخ سے ثابت ہے کہ دنیا کی ہر قوم اور ہر ملت میں ایک سال میں ایسے کچھ دن ضرور معین ہیں، جن کی کوئی خاص وجہ یا خصوصیت رہی ہے، جن میں مسرت و انبساط کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے، جس کے ذریعہ ان دنوں میں ظہور پزیر واقعات کی یاد تازہ ہو۔ دین اسلام ایک فطری اور خالق حقیقی کا پسندیدہ دین ہے، وہ اپنی عیدوں کا احترام کرنا سکھاتا ہے۔ لایعنی شور و غل میں منہمک ہونے کی بجائے اپنے خالق حقیقی کی ثناء اور توحید و بڑائی بیان کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔دین اسلام کی صرف دو ہی عیدیں ہیں (۱) عید الفطر (۲) عید الاضحی۔
عید الفطر اللہ سبحانہ کا عظیم ترین انعام، یعنی نزول قرآن کی سالگرہ اور یادگار ہے۔ اس کے علاوہ ایک ماہ تک مسلسل روزے رکھنے کی توفیق پر دلی مسرت کا اظہار اور شکر گزاری کا جذبہ ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ میں ایسی اچھوتی خصوصیت کسی قوم کی عید میں دکھائی نہیں دیتی۔عید سعید وہ عظیم الشان اسلامی تہوار ہے، جسے ہم آپ رمضان کے مبارک مہینہ کے بعد یکم شوال کو مناتے ہیں۔ عید کی اس دھوم دھام میں کچھ دیر کے لئے ہم نے کبھی ٹھنڈے دل سے غور بھی کیا ہے؟، اپنا احتساب بھی کیا ہے کہ رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ اس ماہ کی برکتوں اور رحمتوں کی جو نعمت ہمیں ملی، اس کے ہم سب کتنے حقدار ہیں؟، اس بخشی ہوئی نعمتوں سے کس قدر فائدہ پہنچا ہے؟۔ کیا کبھی ہم نے اپنے گناہوں کا جائزہ لے کر معبود حقیقی سے صدق دل سے معافی چاہی ہے؟۔ رمضان تو غمخواری اور ہمدردی کا مہینہ تھا، ہم نے کتنوں کی غمخواری کی ہے، کتنے احباب سے ہمدردی کا رویہ رکھا ہے؟۔ فرض نمازوں کی کہاں تک ہم سے ادائیگی ہوئی ہے؟ تراویح کا حق ادا بھی کیا ہے یا نہیں؟۔ دوران روزہ کبیرہ اور صغیرہ گناہوں سے اجتناب کی کیا کیفیت رہی ہے؟۔ اللہ کی راہ میں واقعی خرچ کیا ہے؟ یا مال کی محبت کے جال میں پھنسے رہے۔ صاحب نصاب ہونے پر حساب کرکے صحیح زکوۃ نکالی ہے؟ خود کو اور اپنے اہل و عیال کو بھڑکتی ہوئی آگ سے بچانے کے ضمن میں کہاں تک سعی کی ہے؟۔ کیا روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھے گئے؟۔ تلاوت قرآن مع ترجمہ پڑھ کر اپنے اندر کیا انقلاب لایا گیا، کہاں تک رمضان کا احترام ملحوظ رکھا گیا۔ کبھی ندامت کے آنسو بھی ہماری آنکھوں سے بہے؟۔ احکام الہی کی پابندی میں پیش پیش رہے بھی تھے یا مادہ پرستی کا شکار رہے؟۔ اللہ نے ہمیں خیر امت کے خطاب سے نوازا، اس فریضہ کی ادائیگی کر رہے ہیں؟۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کہاں نبھائی گئی؟۔ آیا ظاہری نمائش سے زیادہ باطنی زیبائش کا خیال رکھا گیا۔ کتنے فلاح و بہبود کے کام انجام دیئے؟۔ تقوی اور پرہیزگاری کا کیا حال رہا؟۔ عید پوچھتی ہے اہل ایمان سے۔ جو لوگ اپنے اعمال سے زندگی میں انقلاب لاتے ہیں، کردار کو سنوار لیتے ہیں، وہ بامراد ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے عید کی سچی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں عید کی سچی خوشی حاصل کرنے والا بنائے۔ (آمین)