عیسائی اقلیتیں اور ہندوستانی جمہوریت

   

رام پنیانی

ہندوستان میں فی الوقت ایک نسلی قوم پرستی بہت ہی جارحانہ انداز میں جاری ہے اور وہ مضبوط بھی ہوگئی ہے۔ مذہبی اقلیتوں کو ڈرا دھمکایا جارہا ہے اور ان پر مسلسل تشدد کیا جارہا ہے۔ اس خطرناک کیفیت میں پچھلے 10 برسوں کے دوران بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے بلکہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ مسلم دشمن تشدد کو دیکھا گیا، محسوس کیا گیا اور جزوی طور پر اسے منظر عام پر بھی لایا گیا، لیکن عیسائی دشمن تشدد کو کئی ایک وجوہات کی بناء پر منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ اس کی بھی ایک وجہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ عیسائیوں کے خلاف تشدد ضرور ہوتا ہے لیکن اس کی شدت زیادہ نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے اس کی سرخیاں نہیں بن پاتیں۔ یہ دراصل شہریوں پر مشتمل حقائق جاننے والی ایک کمیٹی کی رپورٹ میں اخذ کردہ نتیجہ ہے۔ اس کمیٹی نے حالیہ عرصہ کے دوران عیسائی دشمن تشدد کے جو مختلف واقعات پیش آئے، ان کی تحقیقات کی ہے۔ رپورٹ میں ہندوستان میں عیسائیوں کے خلاف مظالم پر نظر رکھنے والے حقوق انسانی کے گروپوں پر تنقید کی گئی۔ یہ وہ تنقیدیں ہیں جو باضابطہ تمام ریاستوں میں ہندوتوا گروپوں کی جانب سے عیسائیوں پر برپا کئے جانے والے تشدد کے واقعات کو ریکارڈ کئے گئے ہیں، لیکن ان واقعات کا زیادہ تر میڈیا نوٹس ہی نہیں لیتا۔ یہاں تک کہ حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی ان واقعات کو نظرانداز کردیتی ہیں۔ حقائق جاننے والی کمیٹی کی رپورٹ میں اُترپردیش جیسی ریاست کے متعدد اضلاع میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ خاص طور پر روڑکی چرچ پر حملہ کی تحقیقات کی گئی۔ عیسائیوں کے اس گرجا گھر پر اکٹوبر 2020ء کو حملہ کیا گیا تھا۔ اس تشدد میں خاص طور پر یہ دیکھا گیا کہ اگرچہ پولیس کو پہلے ہی اطلاع دے دی گئی تھی اور خدشات سے واقف کروادیا گیا تھا لیکن اس نے کوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی اور نہ ہی کوئی اقدامات کئے اور جس وقت چرچ پر حملہ شروع ہوا، پولیس وہاں وقت پر پہنچنے میں ناکام رہی اور وہ بہت تاخیر سے وہاں پہنچی جب تک حملہ آور اپنا کام کرکے وہاں سے جاچکے تھے۔ اس حملے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ عیسائی گروہ تبدیلی مذہب کا کام کررہے ہیں۔ انہیں خطوط پر کئی ذرائع (سب رنگ انڈیا، یو سی ایف، ای ایف آئی آر ایل سی) نے ان کی رپورٹس تیار کی، ان میں بعض رپورٹس ماؤ سے متعلق ہے۔ یہ واقعہ 10 اکتوبر 2021ء کو پیش آیا تھا، اسی طرح 26 جنوری 2021ء کو اندور میں پیش آئے واقعہ پر بھی رپورٹ تیار کی گئی۔ مذکورہ تنظیموں نے 3 جنوری 2021ء کو شاہجہاں پور، 27 جنوری 2021ء کو کانپور، 16 فروری 2021ء کو بریلی، 21 فروری 2021ء کو امبیڈکر نگر، 25 فروری 2021ء کو پریاگ راج (الہ آباد)، 3 مارچ 2021ء کو کانپور، 14 مارچ کو 2021ء کو آگرہ، 22 مارچ کو کیرالا، 29 اپریل 2021ء کو مہاراج گنج، 23 جون 2021ء کو بجنور، 25 جون 2021ء کو گونڈا، 25 جون 2021ء کو اعظم گڑھ، 26 جون 2021ء کو رام پور، 28 جون 2021ء کو رائے بریلی، 29 جون 2021ء کو شاہجہاں پور ، 29 جون 2021ء کو ہی اوریا، 3 جولائی 2021ء کو جونپور، 3 اکتوبر 2021ء کو ہوشنگ آباد، 3 اکتوبر 2021ء مہا سمند اور 3 اکتوبر 2021ء کو بہلائی میں پیش آئے واقعات کے تعلق سے رپورٹ تیار کی ۔ اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر واقعات اترپردیش کے مختلف مقامات پر پیش آئے جبکہ کچھ واقعات کا تعلق ہریانہ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ سے ہے۔ جیسے جیسے ہمارے ملک میں اکثریتی اجارہ داری بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے، ویسے ویسے مذہبی اقلیتوں کو منفی انداز میں پیش کیا جارہا ہے، خاص طور پر عیسائیوں پر یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ لوگوں کو جبراً یا دھوکہ یا لالچ سے مذہب تبدیل کروا رہے ہیں۔ عیسائیوں کا ایک بڑا حلقہ یہ محسوس کررہا ہے کہ انہیں دھمکیاں دی گئیں۔ انہیں رجحانات کے باعث ملک کی غیرمعمولی خدمات انجام دینے والے سابق پولیس عہدیدار جولیو ریبیرو کو یہ کہنا پڑا کہ بحیثیت عیسائی اچانک میں اپنے ملک میں ہی خود کو اجنبی محسوس کرنے لگا۔ انہوں نے یہ بات 2015ء میں کہی تھی اور تب سے حالات بڑی تیزی کے ساتھ ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ 2020ء میں ہندوستانی ریاستوں میں عیسائیوں پر مظالم اور عیسائی دشمن تشدد کے واقعات پر نظر رکھنے والے ایک گروپ پرسیکیوشن ریلیف نے اس سال کے آخری چھ ماہ کے دوران عیسائی دشمن 293 واقعات کو درج کیا۔ ان میں سے 6 واقعات قتل کے تھے، 2 خواتین کو ان کے عیسائی ہونے پر قتل کیا گیا، اور اس سے پہلے ان کی عصمتیں لوٹیں گئیں۔ اسی طرح دیگر دو عورتوں اور ایک 10 سالہ لڑکی کی عیسائیت ترک کرنے سے انکار پر عصمت ریزی کی گئی۔ سارے ہندوستان میں اترپردیش عیسائیوں کے خلاف سب سے خطرناک مقام ثابت ہوا ہے۔ اس ریاست میں عیسائیوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کے 63 واقعات پیش آئے۔ پرسیکیوشن ریلیف کے بانی شیبو تھامس کے مطابق یہ ایسے واقعات ہیں جنہیں ان لوگوں نے ریکارڈ کیا ہے، ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں، جنہیں ریکارڈ نہیں کیا جاسکا یا وہ منظر عام پر نہیں آسکے۔ دوسری طرف مقامی گرجا گھروں کے ساتھ مل کر کام کرنے والی ایک اور تنظیم اوپن ڈورس کا کہنا ہے کہ عیسائیوں کو تمام سرکاری و خانگی سطحوں پر دھمکیوں اور تعصب و جانبداری کا سامنا کرنا پڑا ہے اور عیسائی طبقہ کم از کم 9 ریاستوں میں منظور کئے گئے قوانین انسداد تبدیلی مذہب سے متاثر ہیں۔ عیسائیوں کو ہراساں کیا جارہا ہے، انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں، ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان قوانین کے تحت چند لوگ خاطی بھی قرار دیئے گئے ہیں لیکن مقدمات برسوں چل سکتے ہیں۔ شیبو تھامس کا یہ بھی کہنا ہے کہ عیسائیوں کے رہنے کیلئے جو خطرناک مقامات ہیں اس میں ہندوستان 10 انتہائی خطرناک مقامات میں شامل ہیں۔ ایک اور بات یہ ہے کہ ملک کی مزید کئی ریاستیں انسداد تبدیلی مذہب کے قوانین متعارف کروانے کا منصوبہ رکھتی ہیں جن میں حکومت کرناٹک بھی شامل ہے۔ کرناٹک نے پہلے ہی گرجا گھروں اور عیسائی تنظیموں کے بارے میں خفیہ معلومات اکٹھا کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر ٹیمیں تیار کی ہیں۔ یہ ٹیمیں عیسائیوں کے دعائیہ اجتماعات پر بھی کڑی نظر رکھتی ہیں۔ یکم اکٹوبر 2021ء کو چھتیس گڑھ کے ضلع سرگوجا میں منعقدہ ایک ریالی کے دوران سوامی پراتمانند نے تبدیلی مذہب کے کام میں مصروف اقلیتوں کو چن چن کر قتل کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے یہ اشتعال انگیز بیان بی جے پی قائدین کی موجودگی میں دیا۔ اس کے علاوہ مختلف چیانلوں کے ذریعہ یہ پروپگنڈہ کیا گیا اور کیا جارہا ہے کہ عیسائی مشنریز تبدیلی مذہب کا کام کررہی ہیں اور اس کے لئے عیسائیوں کے اسکولس اہم مراکز ہیں، لیکن مردم شماری کے جو اعداد و شمار ہیں، وہ مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ 1971ء میں جو مردم شماری کی گئی، اس ملک میں عیسائی آبادی 2.60% تھی، 1981ء کی مردم شماری میں یہ کم ہوکر 2.44% ہوگئی، 1991ء میں اس میں مزید گراوٹ آئی اور وہ 2.34% تک پہنچ گئی۔ سال 2001ء میں عیسائیوں کی آبادی 2.30% اور سال 2011ء کی مردم شماری میں عیسائیوں کی آبادی 2.30% ہی رہی۔ عیسائیت کو جان بوجھ کر بیرونی مذہب قرار دیا جارہا ہے لیکن یہ ایک قدیم ہندوستانی مذہب ہے۔ 52 عیسوی میں ساحل مالابار پر سینٹ تھامس کی آمد کے ساتھ ہی عیسائیت کی ہندوستان میں آمد ہوئی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ عیسائی مشنریز پر تبدیلی مذہب کا الزام عائد کیا جارہا ہے لیکن وہ نگہداشت صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کام کررہے ہیں اور یہ کام وہ دور دراز کے علاقوں میں پہنچ کر غریب دلتوں کیلئے کررہے ہیں۔ عیسائیوں کے قائم کردہ تعلیم ادارے اپنے معیار تعلیم کیلئے جانے جاتے ہیں ان اداروں میں داخلوں کیلئے بڑی مسابقت ہوتی ہے۔ آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ عیسائیوں کے خلاف مہم کا آغاز 1970ء میں اس وقت ہوا جب وی ایچ پی اور ون واسی کلیان آشرم نے قبائیلی علاقوں میں اپنا کام شروع کیا۔ گجرات کے ڈانگس میں اپریل ۔ اگست 1998ء کو زبردست تشدد برپا ہوا۔ وہاں سوامی اسیمانند نے جو کئی ایک بم دھماکوں کا ملزم رہا ہے، شابری ماتا ٹیمپل قائم کی اور شابری کمبھ کا اہتمام کیا۔ جیل میں بند آشارام بابو کے حامیوں نے بھی مدھیہ پردیش کے جھابوا میں اسی طرح کا پروگرام منعقد کیا اور پھر 23 ستمبر 1998ء کو وہاں تشدد برپا ہوا۔ اسی طرح کندھامل میں سال 2008ء کے دوران سوامی لکشمانند نے کام شروع کیا اور پھر تشدد بھڑک اٹھا۔ 1999ء میں بجرنگ دل کے راجندر سنگھ پال (دارا سنگھ) نے عیسائی پیسٹر اسٹین اور ان کے دو بچوں کو زندہ جلا دیا۔