عیسائی طبقہ دیرینہ مطالبات کی عدم تکمیل پر حکومت سے مایوس

   

بہبود کیلئے علیحدہ بجٹ ،مسلمانوں کی طرح امدادی اسکیمات کی نمائندگی
حیدرآباد۔/9 اگسٹ، ( سیاست نیوز) کے سی آر حکومت انتخابی فائدہ کیلئے سماج کے مختلف طبقات کے حق میں اعلانات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں عیسائی طبقہ نے حکومت کے رویہ پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ عیسائی طبقہ کے قائدین کو حالیہ اسمبلی اجلاس سے سخت مایوسی ہوئی کیونکہ اسمبلی کی میعاد کے آخری اجلاس میں عیسائیوں کے مسائل پر کسی نے توجہ نہیں دلائی اور نہ ہی حکومت کی جانب سے عیسائیوں کے حق میں کوئی اعلان کیا گیا۔ تلنگانہ کی عیسائی تنظیمیں کئی برسوں سے چرچس کی تعمیر کی اجازت، پاسٹرس کو ماہانہ اعزازیہ، اہل پاسٹرس کو شادی کے اہتمام کیلئے لائسنس کی اجرائی، عیسائی طبقہ کیلئے نامزد عہدوں میں نمائندگی اور فلاحی اسکیمات میں عیسائیوں کی حصہ داری جیسے امور کو پورا کرنے کامطالبہ کررہے ہیں۔ جنرل سکریٹری تلنگانہ یونائٹیڈ کرسچنس اینڈ پاسٹرس اسوسی ایشن جی سولومن راج نے کہا کہ ائمہ اور مؤذنین کے علاوہ مندروں کے پجاریوں کیلئے حکومت نے اعزازیہ اور تنخواہ کا اعلان کیا ہے۔ ائمہ اور مؤذنین کو گذشتہ پانچ برسوں سے ماہانہ 5 ہزار روپئے ادا کئے جارہے ہیں لیکن گرجا گھروں کے پادری یعنی پاسٹرس اس سہولت سے محروم ہیں۔ شادیوں کے اہتمام کے بارے میں لائسنس کی اجرائی سے متعلق کئی درخواستیں محکمہ اقلیتی بہبود میں زیر التواء ہیں۔ عیسائی طبقہ کی نامزد جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک لاکھ روپئے کی امدادی اسکیم ریاست بھر میں محض 2400 عیسائیوں کو دی جارہی ہے جبکہ مسلم اقلیت کیلئے پہلے مرحلہ میں 40 ہزار استفادہ کنندگان کا انتخاب کیا جائے گا۔ تلنگانہ میں عیسائیوں کی آبادی تقریباً پانچ لاکھ ہے لیکن ان کیلئے بجٹ میں کوئی گنجائش نہیں۔ مسلمانوں کی آبادی 50 لاکھ کے قریب ہے ان کیلئے 2200 کروڑ بجٹ مختص کیا گیا۔ چرچس کی تعمیر کیلئے گرانٹ اِن ایڈ جاری کرنے کئی برسوں سے درخواستیں زیر التواء ہیں۔ کرسچن بھون کا ڈسمبر 2022 میں سنگ بنیاد رکھا گیا لیکن آج تک تعمیری کاموں کا آغاز نہیں ہوا۔ حکومت نے اپل بگھائر علاقہ میں 10 کروڑ کے مصارف سے کرسچن بھون کی تعمیر کیلئے 2 ایکر اراضی الاٹ کی تھی اور 1.5 کروڑ کی اجرائی کے باوجود تعمیری کاموں کا آغاز نہیں ہوا۔