غداری قانون پر نظرثانی کا فیصلہ

   

آپ زحمت نہ کریں آج خطا پوشی کی
خود مجھے میری محبت ہی سزا دیتی ہے
مرکزی حکومت نے ایسا لگتا ہے کہ موضوع بحث بنے ہوئے غداری قانون پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ دور غلامی سے چلے آ رہے غداری قانون کے تعلق سے سپریم کورٹ میں درخواستیں داخل کی گئی تھیں ۔ دو دن قبل ہی حکومت نے سپریم کورٹ میں حلفنامہ داخل کرتے ہوئے اس قانون کی مدافعت کی تھی اور عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ اس کے خلاف دائر کردہ درخواستوں کو مسترد کردیا جائے ۔ تاہم آج حکومت نے اپنے موقف میں اچانک تبدیلی لائی ہے اور عدالت کو واقف کروایا ہے کہ مرکزی حکومت نے غداری قانون پرنظرثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ حکومت کا موقف عدالت میں یہ رہا کہ چونکہ ملک میں آزادی کا امرت مہا اتسو چل رہا ہے اور اس کے جذبہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی شخصی ہدایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس قانون کا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ آج حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں تازہ حلفنامہ داخل کیا گیا اور اس میں کہا گیا ہے کہ حکومت غداری قانون کے دفعہ 124A کے دفعات پرنظر کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے ۔ حلفنامہ میں واصح کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس تعلق سے مختلف گوشوں کے خیلات کا جائزہ لیا ہے اور وہ شہری آزادی کے حق میں ہیں۔ حکومت نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ کسی متعلقہ اور اہل فورم میں اس تعلق سے نظرثانی کا عمل مکمل ہونے تک انتظار کرے اور اس پر مزید سماعت نہ کرے ۔ اس قانون کے خلاف ایڈیٹر گلڈ آف انڈیا اور ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا کے علاوہ دوسروں نے بھی درخواستیں داخل کی ہیں۔ حلفنامہ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی دور غلامی کے بوجھ کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اب تک ایسے سینکڑوں قوانین کو برخواست کردیا گیا ہے جو پرانے ہوچکے تھے اور آج کے دور میں ان کی ضرورت نہیں تھی ۔ مرکزی حکومت کا یہ حلفنامہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ شکایت عام ہوگئی ہے کہ غداری قانون کا بیجا استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کے ذریعہ سیاسی مخالفین اور حکومت پر تنقیدیں کرنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
ملک بھر میں اس قانون کے بے دریغ اور بیجا استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ماہ جولائی ہی میں حکومت سے سوال کیا تھا کہ وہ انگریز سامراج کے دور کے بنائے ہوئے اس قانون کو منسوخ کیوں نہیں کر رہی ہے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس طرح کے قانون کو انگریزوں کی جانب سے جدوجہد آزادی کی علامت گاندھی جی کو خاموش کرنے کیلئے بھی استعمال کیا گیا تھا ۔ موجودہ حالات میں ملک کے کئی گوشوں کی جانب سے اس قانون کی مخالفت کی جا رہی تھی اور اسے برخواست کرنے پر زور دیا جا رہا تھا ۔ خود مرکزی حکومت نے تاہم دو دن قبل ہی عدالت میں حلفنامہ داخل کرتے ہوئے اس قانون کی پوری شدت سے مدافعت کی تھی اور عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ اس کے خلاف دائر کی گئی تمام درخواستوں کو مسترد کردیا جائے ۔ تاہم آج حکومت نے اپنے موقف میں تبدیلی کرتے ہوئے عدالت میں حلفنامہ داخل کیا ہے ۔ حکومت کا یہ اقدام ایک طرح سے راحت قرار دیا جاسکتا ہے اور اب یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ حکومت اس قانون میں کس حد تک تبدیلیاں کرتی ہے اور کیا سابقہ قانون کو منسوخ کرکے کوئی نیا قانون بنانے کا فیصلہ کرتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ غداری قانون کا گذشتہ آٹھ سال میں بے دریغ اور بیجا استعمال ہوا ہے اور اس کے ذریعہ حکومت سے اتفاق نہ رکھنے اور حکومت پر تنقید کرنے والے عناصر کو نشانہ بنایا گیا ۔ معمولی باتوں پر غداری کا مقدمہ دائر کرتے ہوئے کئی لوگوں کو جیل منتقل کردیا گیا ہے ۔
اب جبکہ حکومت نے عدالت میں حلفنامہ داخل کرتے ہوئے اس قانون کے دفعات پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ قانون کو ایک ہتھیار کے طور پر نہ بنائے اور نہ ا س کا بیجا استعمال کیا جائے ۔ اسی قانون میں یہ گنجائش بھی رکھی جائے کہ جو لوگ اس قانون کا بیجا استعمال کریں گے انہیں بھی جوابد ہ بنایا جاسکے اور ان کے خلاف بھی مقدمات درج کرتے ہوئے سزائیں دلائی جاسکیں۔ قانون کو قانون کی حیثیت سے برقرار رکھنے کی ضرورت ہے اور اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ ترک ہونا چاہئے اور ملک کے عوام کے خلاف اس کا بیجا استعمال نہیں ہونا چاہئے ۔