غداری کے مقدمات

   

میں چل رہا ہوں عزم و ارادہ لئے ہوئے
تکتے ہیں مجھ کو راہ کے پتھر تو کیا کروں
غداری کے مقدمات
ہندوستانی عام شہریوں پر غداری کے مقدمات عائد کرنے کا سلسلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ حکمراں طاقتوں کے وزراء، ارکان اسمبلی، ارکان پارلیمنٹ ، ادنیٰ ورکرس کی اشتعال انگیزیاں ،نفرت پر مبنی بیانات اور مار ڈالو، گولی مارو سالوں کو ، جیسے فقرے کسنے والوں کوپھول کے ہار پہنائے جارہے ہیں۔ ہندوستان میں معاشرتی نظام بری طرح تباہ ہے، سماجی شعبہ کو خوف و ہراس کے ماحول سے دوچار کردیا گیا ۔ دہلی میں شاہین باغ کے احتجاجیوں، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، جے این یو کے طلبہ کو خوف زدہ کرنے فائرنگ کے واقعات رونماہوئے۔ ان واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی گئی، صرف زبانی طور پر اپنا احتجاج درج کرانے اور پُرامن احتجاجیوں کی گرفتاریوں کے خلاف آواز اُٹھانے والے ہی غداری کیس میں ماخوذ کئے جارہے ہیں۔ جے این یوکے پی ایچ ڈی طالب علم شرجیل امام کی گرفتاری کے خلاف گذشتہ روز ممبئی میں احتجاج کرنے والے50 تا 60 افراد پر غداری کا مقدمہ عائد کیا گیا۔ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کرنے والے غداری کے مقدمہ سے آزاد ہیں ۔ نوجوانوں کی جانب سے پستول کا استعمال نفرت کی سیاست کی نئی علامت بن کر سامنے آئی ہے۔ یہ نفرت کی سیاست ہندوستانی معاشرہ کو تباہ کن یا خون ریز ماحول کی طرف گھسیٹ کر لے جائے گی۔ نوجوانوں کے ذہنوں میں اس ملک کے اقلیتوں کے خلاف نفرت پیدا کردی جارہی ہے۔ بی جے پی قائدین کی جانب سے دی جانے والی نفرت انگیز و اشتعال انگیز تقاریر کے ماحول کو فرقہ وارانہ اور کشیدہ بنادیا گیاہے۔ ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازش کرنے والی طاقتوں نے از خود ایسا رویہ اختیار کرلیا ہے کہ آنے والا ہر دن نفرت انگیز واقعہ کو جنم دے۔ مہاتما گاندھی کے قتل کے دن ہی ایک نوجوان نے ہاتھ میں پستول لے کر شاہین باغ کے احتجاجیوں کو ڈرانے نکلا اور احتجاجی طلباء پر پستول تان کر فائرنگ کردی جس میں ایک طالب علم زخمی ہوا ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قریب پستول لہراتے ہوئے موٹر سیکل رانوں نے بھی فائرنگ کی۔ دارالحکومت دہلی میں بندوق کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے تو یہ ایک خطرناک کھیل ہے جس کا خمیازہ تمام ہندوستانی عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ حکمراں طاقتیں آج اپنے اقتدار کیلئے سماج کو نفرت کی آگ میں جھونک رہی ہیں ۔ یہ نفرت کی آگ اگر سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے تو پھراس کا انجام کیا ہوگا یہ سوچنا ہوگا۔ 70 سال قبل مہاتما گاندھی کو ہلاک کرنے والی ذہنیت آج بھی سرگرم ہے تو یہ 70 سال کا ترقیاتی دور دھرا کا دھرا رہ گیا ہے۔ آج ساری دنیا تیزی سے ترقی کررہی ہے لیکن ہندوستان کو آج بھی غلامی کے دورمیں گھسیٹ کر لے جانے کی کوشش ہورہی ہے۔ حکمراں طاقتوں کے تلوے چاٹنے والا ہمارا قانون اور پولیس والے افسوسناک رول ادا کررہے ہیں۔ ان کی نظروں کے سامنے ایک نوجوان ہاتھ میں پستول لے کر حملہ آور ہونے کی کوشش کررہا ہے لیکن پولیس ہاتھ باندھے یہ تماشہ دیکھ رہی ہے۔دوسری طرف بے قصور غریب مسلمانوں کو گرفتار کرکے ان پر غداری کا مقدمہ عائد کردیا جارہا ہے۔ پولیس کی کارروائیاں بھیانک نتائج برآمد کریں گی۔الزام ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ،جے این یو طلباپر حملہ کرنے والی پولیس اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد اور بی جے پی کے اشاروںپر کام کررہی ہے۔ ادھر تلنگانہ میں ایک سیکولر حکومت میں پولیس فرقہ پرستوں کا ساتھ دے کر غریب مسلمانوں کو گرفتار کررہی ہے ۔ بودھن، نظام آباد، بھینسہ کے حالیہ واقعات آنکھ کھول دینے کے لئے کافی ہیں کہ پولیس کا رول غیر قانونی اور غیراُصولی اور مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش ہے۔ پولیس نے ان لوگوں کو آزادی دے رکھی ہے جو ہاتھوں میں پستول، ذہنوں میں نفرت کا تیزاب اور منہ سے اشتعال انگیزی کی چنگاریاںاُگلتے پھررہے ہیں۔ یہ واقعات مسلمانوں کے لئے غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ انہیں اپنے مستقبل کیلئے ، اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے تیاری کرلینے کا موقع دے رہے ہیں۔ اگر اب بھی مسلمانوں نے خود کو تیار نہیں کیا تو وہ فرقہ پرستوں کی سازشوں کا یوں ہی شکار ہوتے رہیں گے۔