غرور کس کا رہا ہے غرور ٹوٹے گا

   

زرعی قوانین واپس … کسانوں کے آگے حکومت کو جھکنا پڑا
مسلمانوں کیلئے سبق… مخلص اور دیانتدار قیادت کی ضرورت

رشیدالدین
’’دنیا جھکتی ضرور ہے جھکانے والا چاہئے‘‘ ملک کے کسانوں نے اس محاورہ کو درست ثابت کر دکھایا۔ مرکزی حکومت کو احتجاج کے آگے جھکنے پر مجبور کرتے ہوئے کسانوں نے یہ ثابت کردیا کہ دنیا طاقت اور جدوجہد کی زبان سمجھتی ہے۔ نریندر مودی حکومت کو جھکانا آج کے حالات میں ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔ 2014 ء سے مودی حکومت نے یوں تو کئی فیصلے عوام کے مفادات کے خلاف کئے، لیکن ایک بھی فیصلہ واپس نہیں لیا ۔ گزشتہ 7 برسوں میں پہلی بار نریندر مودی نے اپنے کسی فیصلہ کو نہ صرف واپس لیا بلکہ قوم سے معذرت خواہی کی ۔ حکومت نے کسانوں کے احتجاج کے دوران بارہا واضح کردیا تھا کہ زرعی قوانین واپس نہیں لئے جائیں گے لیکن ایک سال کی طویل جدوجہد اور قربانیوں کے آگے مودی حکومت کو گھٹنے ٹیکنا پڑا۔ زرعی قوانین کی واپسی دراصل مودی حکومت کے غرور اور تکبر کی بھی شکست ہے۔ گزشتہ 7 برسوں میں مرکز کا رویہ انتہائی آمرانہ رہا اور اپوزیشن و عوام کو خاطر میں نہیں لایا گیا ۔ نومبر 2020 ء میں سے کسان سڑکوں پر ہیں۔ 500 سے زائد کسانوں نے اس جدوجہد کے دوران اپنی جان کی قربانی دی ۔ باوجود اس کے عوام کو یقین نہیں تھا کہ مودی زرعی قوانین کے بارے میں اپنا فیصلہ واپس لیں گے ۔ گرو نانک جینتی کے دن اچانک صبح 9 بجے مودی قوم سے خطاب کرنے ٹی وی چیانلس پر نمودار ہوگئے ۔ مودی جب کبھی قوم سے خطاب کے لئے ٹی وی اسکرین پر آئے کچھ نہ کچھ انہونی ہوتی رہی۔ نوٹ بندی اور کورونا لاک ڈاؤن جیسے اعلانات قوم سے خطاب کے ذریعہ کئے گئے تھے۔ لوگ پوری طرح نیند سے بیدار بھی نہیں ہوئے تھے کہ مودی نے زرعی قوانین سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے ہر کسی کی نیند اُڑادی۔ مودی کو لائیو سننے والوں کو یقین نہیں ہورہا تھا کہ واقعی زرعی قوانین واپس لئے گئے۔ لوگ ایک دوسرے کو فون کرتے ہوئے مودی کے اس اعلان پر استفسار کرنے لگے۔ ایک سیاسی قائد نے یہاں تک کہہ دیا کہ نیند میں شائد کسی نے غلط سنا ہے۔ اس اہم اعلان کیلئے وزیراعظم نے جس دن کا انتخاب کیا ، وہ بھی نہ صرف اہمیت کا حامل ہے بلکہ مودی کے قریب قابل مشیروں کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ گرونانک جینتی کے دن زرعی قوانین سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے مودی نے سیاسی ہیٹرک لگائی ہے کیونکہ سیاہ قوانین کی تعداد بھی تین ہے۔ اس اعلان سے مودی نے پنجاب اور اترپردیش اسمبلی چناؤ میں بی جے پی کی کامیابی کی راہ تقریباً ہموار کردی ہے اور یہ اپوزیشن پر زبردست وار ہے۔ پارلیمنٹ اور کئی ریاستوں میں واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار کے باوجود زرعی قوانین سے دستبرداری معمولی بات نہیں۔ ملک بھر میں مضبوط موقف کے باوجود یہ فیصلہ سکھوں کی طاقت کو تسلیم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سکھ جو ہندوستان میں مسلمان اور عیسائی کے بعد تیسری بڑی اقلیت ہیں، انہوں نے اپنی طاقت کو منواتے ہوئے ہر مظلوم کو درس دیا ہے کہ جہد مسلسل کے نتیجہ میں کامیابی ممکن ہے۔ کسانوں نے جدوجہد کے ساتھ ساتھ طاقت کا بھی مظاہرہ کیا اور لال قلعہ پر اپنا پرچم لہرایا۔ کسانوں کی تائید میں پنجاب کی اکالی دل نے بی جے پی سے ناطہ توڑلیا۔ جدوجہد اور لڑائی میں تعداد کی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ مٹھی بھر افراد سرفروشی کے جذبہ کے ساتھ ہوں تو بڑی فوج پر غالب آسکتے ہیں اور یہ کام سکھوں نے کردیا ۔ سکھوں کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مودی جیسے حکمراں کو معذرت خواہی کرنی پڑی ۔ اتنا ہی نہیں آپریشن بلیو اسٹار کیلئے کانگریس پارٹی آج تک بھی سکھوں سے معذرت خواہی کر رہی ہے۔ مودی نے شائد ہی آج تک اپنے کسی فیصلہ پر ندامت کا اظہار کیا ہو اور ان کے انداز حکمرانی نے اپوزیشن کیلئے بھی مشکلات کھڑی کردی ہے۔ کسانوں کے ایجی ٹیشن کو ناکام بنانے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا گیا ۔ کسان قائدین میں پھوٹ ڈالنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے گئے ۔ کسانوں کی تائید کرنے والوں پر مقدمات درج کئے گئے ۔ کسانوں کے احتجاج پر پولیس کے ذریعہ مظالم ڈھائے گئے ، حتیٰ کہ اترپردیش میں کسانوں کو گاڑی سے روند دیا گیا ۔ کسان قیادت کی کردار کشی کی گئی اور عوام کو احتجاج سے ناواقف رکھنے کیلئے گودی میڈیا نے بائیکاٹ کیا۔ ٹی وی چیانلس اور اخبارات میں کسان احتجاج کی خبریں غائب کردی گئیں۔ احتجاجیوں کو پانی اور برقی کی سربراہی روک دی گئی ۔ غذا کی منتقلی روکنے کی کوشش کی گئی۔کسانوں کے اطراف خاردار حصاربندی کی گئی۔ کسانوں کو دہشت گرد اور خالصتانی کہا گیا الغرض جس طرح دشمن کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے ، وہ ملک کے کسانوں کے ساتھ کیا جاتا رہا لیکن کسانوں کی ہمت اور حوصلہ کو کمزور نہیں کیا جاسکا۔ گودی میڈیا کے اینکرس جو کل تک زرعی قوانین کی تعریف کے پل باندھ رہے تھے اور کسانوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے، انہیں بھی قوم سے معافی مانگنی چاہئے ۔ جو کسان زمین کا سینہ چیر کر اناج اگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، انہوں نے اپنی ثابت قدمی کے ذریعہ مودی حکومت کو جھکنے پر مجبور کردیا جو یقیناً آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک کامیاب ایجی ٹیشن اور سنہرا باب ہے۔
کسانوں نے تو اپنی جنگ جیت لی ، ساتھ ہی ہر مظلوم قوم کو سبق دیا کہ انصاف کے حصول کے لئے زبانی جمع خرچ سے کام نہیں ہوگا بلکہ جہد مسلسل کی ضرورت پڑتی ہے۔ جدوجہد کی راہ میں قربانی کیلئے بھی تیار رہنا پڑتا ہے جو مقدمات اور جیل کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ کسان ہر آزمائش پر کھرے ثابت ہوئے اور ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹایا ۔ کسانوں کی کامیابی مسلمانوں کیلئے ایک سبق ہے جو ملک میں طرح طرح کی آزمائشوں کا شکار ہیں۔ مسلمان جو 70 برسوں کی جدوجہد سے حاصل نہ کرسکے ، کسانوں نے ایک سال میں حاصل کرلیا۔ کسی بھی جدوجہد میں کامیابی کیلئے مخلص ، دیانتدار اور بے باک قیادت ضروری ہے۔ مصلحتوں کا شکار، مفادات کی اسیر اور بکاؤ قیادت سے سودے بازی کے علاوہ کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ یہی حال آج مسلمانوں کا ہے۔ قوم متحد ہونا چاہے تب بھی قیادت انتشار کا سبب بن جاتی ہے۔ جس طرح کسانوں کے درمیان سے نئی قیادت ابھری اسی طرح مسلمانوں میں روایتی اور فرسودہ قیادت کی جگہ نئی قیادت ابھارنے کی ضرورت ہے جو مخلص اور قوم سے ہمدردی کا حقیقی جذبہ رکھتی ہو۔ ہاتھ جوڑ ، حکومت اور پولیس کی مخبر قیادتوں سے قوم کی بھلائی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ یہ وہی لوگ ہیں جو دن میں تو احتجاج کی بات کریں گے لیکن رات کی تاریکی میں اقتدار کی گلیاریوں میں سودے بازی کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس نے شاہ بانو کیس میں شریعت میں مدا خلت کے خلاف آواز بلند کی تو حکومت کو دستور میں ترمیم کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بے اثر کرنا پڑا۔ مولانا علی میاں ، مجاہدالاسلام قاسمی ، منت اللہ رحمانی، بنات والا اور ابراہیم سلیمان سیٹھ جیسے رہنماؤں کا آج مذہبی اور سیاسی سطح پرکوئی متبادل نہیں ہے۔ آج تو صورتحال یہ ہے کہ مسجد چھین لی جائے ، شریعت میں مداخلت ہوجائے اور مسلمانوں کا خون پانی سے سستا ہوجائے لیکن قیادت پر بے حسی طاری ہے۔ ہر چیز کو سہہ لینا مصلحت نہیں بلکہ بزدلی ہے۔ منزل کے حصول کا جذبہ زندہ ہو تو ضعیف کسان بھی ایک سال تک بارش ، سردی اور گرمی کی پرواہ کئے بغیر سڑکوں پر رہے لیکن مسلم عبادت گاہوں اور شریعت کے تحفظ کے لئے نکلنے تیار نہیں کیونکہ قیادتوں نے قوم کو سلادیا ہے۔ قوم کے دل میں بہادری کی جگہ بزدلی اور خوف پیدا کردیا گیا۔ ایک زمانہ وہ تھا جب علماء اور قائدین قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرتے تھے لیکن آج خود قیادتیں بے حسی کا شکار ہیں۔ بابری مسجد سپریم کورٹ کے ذریعہ چھین لی گئی اور اس کی جگہ مندر تعمیر کی جارہی ہے۔ شریعت میں مداخلت کرتے ہوئے طلاق ثلاثہ پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ سی اے اے قانون کو پارلیمنٹ نے منظوری دے دی ۔ اب این آر سی اور این پی آر کی تیاریاں جاری ہیں تاکہ مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک کیاجاسکے۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور ہم دیکھتے رہ گئے۔ ان مسائل پر احتجاج بھی نہیںکے برابر تھا اور حکومت نے ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کی آواز پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اگر یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب یکساں سیول کوڈ نافذ کرتے ہوئے ہندو راشٹر کے قیام کا اعلان کردیا جائے گا ۔ مسلمانوں کیلئے اسپین کے حالات پیدا کئے جائیں گے۔ کشمیر میں خصوصی موقف کی دفعہ 370 ختم کردی گئی اور وہاں جو کچھ بھی حالات ہیں اس بارے میں ہر کوئی اچھی طرح جانتا ہے۔ مسلمانوں سے ناانصافیاں ہوں یا پھر کشمیریوں کی حق تلفی ان معاملات میں کسانوں کی طرح احتجاج کی ضرورت تھی لیکن حکومت نے قیادتوں کو خرید لیا ہے۔ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں 101 دن تک مسلسل احتجاج کیا گیا لیکن وہ بے اثر ثابت ہوا۔ احتجاج میں حصہ لینے والوں کو دیش دروہی قرار دیتے ہوئے سنگین مقدمات میں جیل بھیج دیا گیا۔ کاش ملک کے مسلمان اپنا حق حاصل کرنا کسانوں سے سیکھیں گے ۔ ندیم شاد نے کیا خوب کہا ہے ؎
اگر نہ آج ہی کل ضرور ٹوٹے گا
غرور کس کا رہا ہے غرور ٹوٹے گا