روش کمار
جب کبھی آپ کو ایک ایسا نوجوان ملے گا ، جو بیروزگاری سے متاثر ہو یا ایسا کوئی شخص ملے گا، جس کی تنخواہ میں تخفیف کی گئی ہو یا ایسا کاروباری ملے گا، جس کا کاروبار نہیں چل رہا ہو اور یہ تمام کے تمام پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہوں تو ایسے نوجوانوں میں بے چینی پائی جانی یقینی ہے۔ وہ پریشان بھی دکھائی دے گا، لیکن آپ اس کے کان میں صرف یہ کہتے ہوئے کہ اب کوئی دوسرا امکان نہیں اس کی بے چینی دور کرسکتے ہیں۔ جیسے ہی آپ اس کے کان میں یہ بات کریں گے، اس کے ساتھ ہی اس کا چہرہ چمک اُٹھے گا۔ اس طرح کے الفاظ سن کر عوام جو 100 روپئے فی لیٹر پٹرول خرید رہے ہیں، بہت جلد 114 روپئے فی لیٹر پٹرول خریدیں گے اور یہی کہے گا ’’جانے دو‘‘ کیونکہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے (یہ سطور لکھے جانے تک ملک کے مختلف ریاستوں میں پٹرول فی لیٹر 120 روپئے فروخت کیا جارہا ہے) آپ نے دیکھا کہ مودی جی نے جو کچھ کہا چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہوں، عوام نے اسے سنا اور اس پر آنکھیں بند کئے عمل میں بھی کیا۔ مثال کے طور پر مودی جی نے جب یہ کہا کہ کورونا وائرس کو بھگانے کا واحد طریقہ تھالی اور تالی بجانا ہے، تب اکثر لوگ اور خاص طور پر اونچی عمارتوں میں رہنے والوں نے اپنی بالکونیوں میں آکر تھالیاں اور تالیاں دونوں بجائیں اور اب بالآخر غریب متوسط طبقہ ، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت جو کہے گی، وہ کریں گے، کیونکہ یہ ان کی مجبوری ہے۔ یہ ہندوستانی اب 114 تا 119 روپئے فی لیٹر پٹرول اپنی گاڑیوں میں بھرواکر صرف اس لئے مطمئن ہیں، کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا امکان نہیں۔ اب آنے والے دنوں میں یہی لوگ بناء کسی احتجاج کے بہ آسانی 200 روپئے فی لیٹر پٹرول خرید سکتے ہیں۔ دوسری جانب مرکزی وزراء اور بی جے پی قائدین پٹرول اور ڈیزل پر عائد بہت زیادہ محاصل یا ٹیکسوں کے بارے میں یہ وضاحت کررہے ہیں کہ آپ لوگوں کو کورونا ویکسین مفت دیا جارہا ہے۔ سبسڈی پر اناج فراہم کیا جارہا ہے۔ ایسے میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو اس پر اعتراض کی کیا بات ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومت نے کروڑہا روپئے خرچ کرتے ہوئے ملک بھر میں اہم شاہراہوں، چوراہوں اور مرکزی مقامات پر بڑے بڑے ہورڈنگس لگائی ہیں جس کا مقصد یہی ہے کہ عوام کو یہ بتایا جائے کہ کورونا ویکسین مفت دی جارہی ہے جس کے لئے مودی جی کا بہت بہت شکریہ۔ حال ہی میں وزیر پٹرولیم ہردیپ پوری نے عوام کو یہ یاد دلایا کہ انہیں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ پر اپنا منہ نہیں کھولنا چاہئے کیونکہ اگر کوئی یہ بات کرتا ہے کہ پٹرول اور ڈیزل پر عائد محاصل بہت زیادہ ہیں تو اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ویکسین مفت دیا جارہا ہے۔ اناج بھی مفت فراہم کیا جارہا ہے۔
آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پچھلے چھ ماہ کے دوران پٹرول ، ڈیزل، پکوان گیاس اور خوردنی تیلوں خاص کر سرسوں کا تیل اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں حد سے زیادہ اضافہ ہوا اور اس بڑھتی مہنگائی کے نام پر آپ یعنی عوام نے ہزاروں، لاکھوں کروڑ روپئے حکومت کو دیئے اور حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم نے آپ کو مفت ٹیکہ دیا ہے، اگر حکومت نے آپ کو زیادہ سے زیادہ 500 روپئے کا ٹیکہ مفت دیا ہے لیکن آپ سے اس سے کہیں زیادہ رقم اینٹھ لی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے غریبوں کے اوپری جیب سے 100 روپئے نکالا اور نچلی جیب میں 10 روپئے ڈال دیئے اور یہ سب کام حکومت یہ کہتے ہوئے کررہی ہے کہ ہم جو کچھ بھی کررہے ہیں، وہ آپ کی بھلائی کیلئے ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر پٹرولیم، صنعتی گھرانوں سے ایسی ہی بات کہتے کہ ہم آپ پر عائد ٹیکسوں میں اضافہ کررہے ہیں اور یہ اس لئے کیا جارہا ہے کہ تاکہ اس سے غریبوں کو راحت مل سکے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں کہیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت اس بات کا انکشاف کرنے سے گریز کررہی ہے کہ اس نے کتنے لوگوں کو رقم کی ادائیگی پر ٹیکے دیئے ہیں۔ وزیر پٹرولیم کے پاس اس بارے میں کوئی ڈیٹا نہیں اور حکومت یہ کیسے کہہ سکتی ہے؟ اگر حکومت نے 25% کوٹہ خانگی شعبہ کیلئے مقرر کررکھا ہے تو پھر حکومت ہی کیوں نہیں جانتی کہ خانگی شعبہ میں کتنے ویکسین دیئے گئے۔ اس بارے میں خانگی دواخانے ہی بہتر طور پر بتا سکتے ہیں اور وہ بھی نہیں بتا رہے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خانگی اسپتال ٹیکوں کا ریکارڈ نہیں رکھتے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ ہمارے ملک میں بھارت بائیوٹیک اور سیرم انسٹیٹیوٹ صرف دو کمپنیاں ہیں جو ویکسین تیار کرتی ہیں۔ کیا ہم ان دو کمپنیوں سے یہ نہیں دریافت کرسکتے کہ آخر ان کمپنیوں نے خانگی دواخانوں کو کتنے ویکسین فراہم کئے۔ اگر ایسا ہے تو پھر حکومت یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ اس کے پاس کوئی ڈیٹا نہیں جبکہ ملک بھر میں جگہ جگہ مفت ویکسین دیئے جانے کے پوسٹرس آویزاں کئے گئے ہیں۔ اُن لوگوں کو بھی مفت ٹیکہ اندازی مہم سے استفادہ کرنے والوں میں شامل کیا گیا جنہوں نے رقم ادا کرتے ہوئے ٹیکے حاصل کئے۔
اس بارے میں ہم اپنے ہندوستانی صنعت کاروں اور ارب پتیوں کو برطانیہ کے صنعت کاروں اور ارب پتیوں سے سبق سیکھنے کا مشورہ دے سکتے ہیں، کیونکہ برطانیہ کے 30 دولت مندوں نے حکومت کو ایک مکتوب لکھتے ہوئے کہا کہ اگر کووڈ کے چیلنج سے نمٹنے میں حکومت کو رقم کی قلت کا سامنا ہو تو پھر اُسے دولت مندوں پر محاصل میں اضافہ کرنا چاہئے۔ ان دولت مندوں نے حکومت سے یہ بھی کہا کہ کم آمدنی والے لوگوں اور نوجوانوں پر بوجھ عائد نہ کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ دولت مند ہندوستانی ’’گارجین‘‘ میں شائع اس خبر کو پسند نہیں کریں گے اور نہ ہی غریب اس خبر کی پرواہ کریں گے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے پاس دوسرا کوئی امکان نہیں ہے۔ گارجین میں شائع رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے 30 کروڑ پتیوں نے برطانوی وزیر فینانس کو ایک مکتوب روانہ کیا اور واضح طور پر کہا کہ دولت مند ہی ٹیکس ادا کرسکتے ہیں، اس لئے دولت مندوں پر ٹیکس عائد کرنا چاہئے، ناکہ ملازمین، صاف صفائی کرنے والوں ، اساتذہ اور اسپتالوں میں خدمات انجام دینے والوں پر اس کا بوجھ عائد نہیں کیا جانا چاہئے۔ برطانیہ کے دولت مند یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر غریبوں پر بوجھ عائد کیا جائے تو اس سے معاشی تفاوت یا عدم مساوات میں اضافہ ہوسکتا ہے اور پھر عدم مساوات برطانوی معاشرے میں عدم استحکام کا باعث بنے گا اور ایسا ہوتا ہے تو ملک کی معاشی ترقی پر اس کا خراب اثر مرتب ہوگا۔ اس لئے دولت مندوں پر ٹیکس میں اضافہ کرتے ہوئے غریبوں کو فائدہ پہنچانا چاہئے۔ برطانیہ کے برعکس ہندوستان میں ٹیکس کا بوجھ عائد کیا جاتا ہے۔ ’’گارجین‘‘ میں شائع خبر کے مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ وہاں غریبوں کو ٹیکس کے بوجھ سے بچانے کیلئے محب وطن کروڑ پتیوں کی تحریک کے نام سے ایک تحریک شروع کی گئی ہے۔ اس تحریک کے بارے میں تمام تفصیلات پروگریس پارٹنرس ڈاٹ آرگ پر موجود ہیں۔ صنعتی شعبہ سے جڑے کئی ایسے لوگ ہیں جن کا ماننا ہے کہ جب تک پیسہ عام لوگوں کے ہاتھوں تک نہیں پہنچ پاتا ، تب تک معیشت آگے نہیں بڑھے گی۔ مذکورہ ویب سائٹ پر یہ بھی لکھا گیا ہے کہ لوگوں کو غریب بناتے ہوئے معیشت نہیں چلائی جاسکتی۔ مزید یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ہم اس بات کو غلط سمجھتے ہیں کہ دولت مند لوگ اور صنعتی گھرانے اپنی دولت بیرونی ممالک میں رکھیں تاکہ ٹیکس سے بچا جاسکے۔ ٹیکس سے بچنے کی خاطر کھرب ڈالرس دیگر ممالک میں جمع کروائے گئے ہیں جس کے نتیجہ میں عدم مساوات اور معاشی تفاوت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
اب ہم دولت مند ہندوستانیوں کی بات کرتے ہیں، یہ لوگ بھی محاصل سے بچنے کیلئے پیسہ بیرونی ممالک منتقل کررہے ہیں۔ اس بارے میں موقر انگریزی روزنامہ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں کئی دنوں سے رپورٹس شائع ہورہی ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ اس قسم کی خبریں ہندی اخبارات اور چیانلوں کے توسط سے پڑھتے اور نہ دیکھتے ہیں ورنہ یہ جان کر آپ کی خوشیاں غم میں تبدیل ہوجاتیں، ایک طرف ٹیکس کے نتیجہ میں غریب ، غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں اور دوسری طرف محب وطن دولت مند اپنا پیسہ بیرونی ممالک منتقل کررہے ہیں تاکہ ٹیکس سے بچنے کے ساتھ ساتھ مزید دولت مند ہوسکیں۔ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کی رپورٹ میں ایسے 300 سے زائد ہندوستانیوں کے ناموں کا حوالہ دیا گیا اور ٹیکس کی بچت کرنے یا ٹیکس چوروں کی اس فہرست میں بھارت رتن سچن تنڈولکر بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں نے بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان میں اپنا پیسہ رکھنے کے بجائے بالی میں اپنی رقم جمع کررکھی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قسم کی خبروں پر ہندوستان میں کوئی ہلچل نہیں جبکہ برطانوی دولت مند اپنی حکومت کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے یہ بتارہے ہیں کہ محاصل سے بچنے کیلئے بیرونی ممالک میں رقومات جمع کرنا غلط ہے ، اس سے لوگ مزید غریب ہوجائیں گے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ غریبوں کی جیب سے پیسہ نکال کر یہ کہنا کہ ہم غربت کا خاتمہ کررہے ہیں ، حیرت کی بات ہے ، اس کے لئے ہندوستانی عوام کو مبارکباد دی جانی چاہئے کیونکہ ان کے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں۔