نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
چند دن قبل ہی ساری دنیا میں اس بات پر خوشی اور مسرت کا اظہار کیا گیا کہ غزہ میں دو سال سے جاری جنگ بند ہوگئی ہے ۔ اسرائیل اور حماس کے مابین معاہدہ ہوگیا ہے ۔ حماس نے یرغمال فلسطینیوں کو رہا کردیا ہے ۔ جو مہلوک اسرائیلی ہیں ان کی نعشیں بھی سپرد کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح اسرائیل نے غزہ سے اپنی افواج کا تخلیہ شروع کردیا تھا ۔ غزہ میں فلسطینیوں کیلئے انسانی امداد پہونچنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا ۔ ابتدائی مراحل میں سب کچھ ٹھیک نظر آر ہا تھا اور یہ امید کی جا رہی تھی کہ لگاتار دو سال سے جنگ کی صعوبتیں برداشت کرنے والے فلسطینیوں کو کچھ راحت ملے گی ۔ کئی گوشوں سے فلسطین اور خاص طور پر غزہ اور مغربی کنارہ کی تعمیر نو کیلئے بھی پہل کرنے کی بات کی جا رہی تھی ۔ تاہم کچھ گوشے ایسے بھی ضرور تھے جو جنگ بندی کے تعلق سے اسرائیل کے عزائم پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے تھے اور یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے کہ اسرائیل جب چاہے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرے گا اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے بعد ایک بار پھر فوجی کارروائیوں کا کسی بھی بہانے سے آغاز کرے گا ۔ اب وہ اندیشے درست ثابت ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ میں ایک بار پھر فضائی حملے کئے ہیں اور ان حملوں میں 33 فلسطینیوں کی شہادتیں ہوئی ہیں۔ اسرائیل نے غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد رسانی کا سلسلہ بھی روک دیا ہے ۔ اسرائیل کا دعوی ہے کہ حماس کی جانب سے غزہ میں کچھ مقامات پر حملے کرنے کی تیاری کی جا رہی تھی ۔ اس طرح کے بہانوں اور عذر کو قابل قبول نہیں کہا جاسکتا ۔ یہ دباؤ بڑھنے لگا ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے ۔ خود فلسطینی اتھاریٹی چاہتی ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے ۔ اسی دباؤ میں اضافہ کے مقصد سے اسرائیل کی جانب سے تازہ کارروائی کی گئی ہے جس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ غزہ میں جو جنگ بندی ہوئی ہے اس کا دار و مدار صرف اسرائیل کے عزائم پر ہے اور اسرائیل جب چاہے اپنی مرضی سے حملے کرسکتا ہے اور جنگ بندی کے مستقبل کو خطرہ میں ڈال سکتا ہے ۔ اتوار کو کئے گئے حملے اس بات کا ثبوت ہیں ۔ ان حملوں سے کئی سوال پیدا ہونے لگے ہیں۔
صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے خود مصر کے شہر شرم الشیخ پہونچ کر جنگ بندی معاہد پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی ۔ کئی عالمی قائدین یا ان کے نمائندے بھی اس تقریب میں موجود تھے ۔ ٹرمپ نے اس جنگ بندی کیلئے خود کو شاباشی دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کی ۔ دنیا بھر کے کئی قائدین نے بھی ٹرمپ کی تعریفوں کے پل باندھے اور انہیں جنگ بندی معاہدہ کیلئے مبارکباد پیش کی ۔ تاہم اسرائیل ایک بار پھر اس جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی پر اتر آیا ہے ۔ اس نے جنگ بندی معاہدہ کی آڑ میں اپنے یرغمالیوں کو رہا کروالیا ۔ اپنے مہلوکین کی نعشیں بھی واپس لے لیں اور پھر سے فضائی حملے شروع کردئے ہیں۔ اگر یہ یکا دوکا کارروائی ہے تو اس کا سلسلہ فوری روکا جانا چاہئے تاہم اگر یہ منظم اور منصوبہ بند کارروائی ہے تو پھر خود ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کی ستائش کرنے والے عالمی قائدین کو حرکت میں آنے اور اسرائیل پر لگام کسنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ جس طرح جنگ بندی معاہدہ کرواتے ہوئے شاباشی بٹوری گئی تھی اسی طرح اس کی خلاف ورزیوں کو روکنا بھی ان تمام کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ اگر جنگ بندی کا معاہدہ محض اسرائیل کے مفادات کی تکمیل کرنا تھا تو پھر عالمی قائدین کیلئے یہ باعث شرم کہا جاسکتا ہے ۔ مصر ‘ امریکہ ‘ برطانیہ اور دوسرے ممالک کو اسرائیل کے فضائی حملوں کا سخت نوٹ لینے کی ضرورت ہے اور انہیں اسرائیل کو اس طرح کے حملوں سے روکنے کیلئے حرکت میں آنا چاہئے ۔ حملوں کا سلسلہ دراز نہیں ہونا چاہئے ۔
غزہ کے عوام دو سال تک انتہائی اور ناقابل بیان مصائب برداشت کرچکے ہیں۔ ان کی منظم اور منصوبہ بند انداز میں نسل کشی کی گئی ہے ۔ ان کے ہنستے بستے شہروں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ کئی بستیاں ویرانوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ اب بھی اگر ان فلسطینیوں کو جنگ کا شکار ہی بنایا جاتا رہے گا تو یہ ساری دنیا کیلئے باعث شرم ہوگا ۔ اسرائیل کو اس کے جارحانہ تیور سے روکنا سب کی ذمہ داری ہے ۔ اب کسی بھی قیمت پر دوبارہ غزہ اور فسلطین کے نہتے اور بے بس عوام پر جنگ مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس سے پہلے کہ اسرائیل دوباہر مکمل جنگ کا آغاز کردے اسے روکا جانا ضروری ہے ۔