طاقتور ممالک کا دوہرا معیار ، امدادی بحران کی بنیادی وجہہ
قحط ، خوراک کی شدید قلت کی وہ حالت ہے جب کم از کم ۲۰ فیصد آبادی کو خوراک کی شدیدکمی کا سامنا ہو بطور خاص بچوں میں شدید غذائی قلت ۳۰ فیصد سے زیادہ ہو نیز روزانہ اموات کی شرح دس ہزار افراد میں سے کم از کم ۲ ہو ، علاوہ ازیں بھوک کا بحران ایسی حالت کو کہتے ہیں جب ایک بڑی آبادی کو روزمرہ کے لئے مناسب ، محفوظ اور غذائیت بخش خوراک میسر نہ ہو جس کی وجہ سے اُن کی صحت ، ترقی اور بقاء خطرے میں پڑجائے ۔
غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت صرف بمباری یا زمینی حملوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب یہ ایک انسانی زندگی کے بنیادی حق ، خوراک کو ہدف بناکر قحط کے ایک ہتھیار میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ خوراک کی ترسیل روکنا ، انسانی امداد کو بند کرنا اور زرعی زمینوں پر حملے کرنا ایسے اقدامات ہیں جو واضح طورپر قحط کی ایک منظم پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں۔
غزہ کے باشندے باہر نہیں جاسکتے کیونکہ وہ محصور ہیں نیز جنگ نے زراعت کا خاتمہ کردیا ہے اور اسرائیل نے ماہی گیروں پر پابندی عائد کر رکھی ہے ۔ اس لئے جو کچھ بھی غزہ کی آبادی کھاتی ہے وہ تقریباً مکمل طورپر باہر سے آتا ہے ۔ جب باہر سے آنے والی امداد کو روک دیا جائے تو یہ قحط کی صورت پیدا کرنے کی سازش ہوگی ۔
اسرائیل عرصہ دراز سے فلسطین میں قحط کی صورت پیدا کرنے کیلئے اقدامات کررہا ہے ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق غزہ کے شمالی علاقوں میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے ۔ بچوں ، خواتین اور معمر افراد کی ایک بڑی تعداد شدید غذائی قلت کا شکار ہوچکی ہے ۔ اقوام متحدہ کے ادارہ (UNICEF) کے مطابق اگر فوری امداد نہ پہنچی تو ہزاروں جانیں ضائع ہوسکتی ہیں۔ یہ قحط کوئی قدرتی آفت نہیں ہے بلکہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ ہے ۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی ، امدادی سامان کی بندش اور غذائی اجناس کی ترسیل پر پابندی نے اس انسانی بحران کو جنم دیا ہے ۔ یہ بین الاقوامی انسانی قوانین خاص طورپر جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔
اسرائیل نے ابتداء میں خوراک کی ترسیل کا حساب لگایا کہ کتنی مقدار میں غذائی اجناس روکی جائیں تاکہ دباؤ ڈالا جاسکے لیکن بھوک سے موت نہ آئے ۔ یہ بات۲۰۰۶ء میں اس وقت کے وزیراعظم ایہوڈ اولمرٹ کے ایک سینیر مشیر نے کہی تھی کہ ’’خیال یہ ہے کہ فلسطینیوں کو ڈائٹ پر رکھا جائے ۔ مگر اُنھیں بھوکا نہ مارا جائے ‘‘ ۔ دو سال بعد ایک اسرائیلی عدالت نے اُن ہولناک حسابات کی تفصیلات پر مشتمل دستاویزات عام کرنے کا حکم دیا ۔
کوگاٹ (Cogat) جو اسرائیلی ایجنسی ہے اب بھی غزہ کو بھیجی جانے والی امداد پر کنٹرول رکھتی ہے نے اُس وقت حساب لگایا تھا کہ ایک فلسطینی کو روزانہ کم از کم 2,279 Calories درکار ہیں جو کہ تقریباً 1.836 کیلوگرام خوراک سے حاصل ہوسکتی ہے ۔
آج انسانی حقوق کی تنظیمیں اس سے بھی کم راشن کا مطالبہ کررہی ہے ۔ ہر ماہ ۲۱ لاکھ افراد کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے ۶۲۰۰۰ میٹرک ٹن خشک اور ڈبہ بند خوراک یعنی یومیہ فی کس ایک کیلو خوراک درکار ہے ۔
حالیہ دنوں میں دو اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اعلان کیا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے ۔ جن کی رپورٹس میں ’’بھوک کو ہتھیار‘‘ کے طورپر استعمال کرنے جیسے شواہد شامل کئے گئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچے خاص طورپر وہ جو دیگر طبی مسائل کا شکار ہوں اور بزرگ افراد قحط کی صورتحال میں سب سے زیادہ خطرہ میں ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ۲۵فیصد بچے ، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی مائیں غذائی قلت کا شکار پائی گئیں جبکہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں شدید غذائی قلت کے Cases دو ہفتوں میں تین گنا بڑھ چکے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قحط کی وجہ سے اموات نیز بھوک اور بیماری کی وجہہ سے موت کے شواہد بڑھتے جارہے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائرکٹر برائے ایجنسی راس اسمتھ نے کہا : ’’یہ ایک انتہائی سنگین سانحہ ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری اسکرینوں پر رونما ہورہا ہے ۔ یہ کوئی وارننگ نہیں بلکہ فوری کارروائی کی اپیل ہے ۔ ہم نے اس صدی میں ایسا کچھ نہیں دیکھا ‘‘ ۔ غذائی قلت کی وجہ سے بچوں میں نمو کی خرابی ، دماغی نشوونما میں خلل اور بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت میں کمی واقع ہورہی ہے ۔ اس کے علاوہ حاملہ خواتین میں غذائی قلت سے پیدائش کے دوران مسائل اور نوزائیدہ بچوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ منظم قحط کی پالیسی درحقیقت نسل کشی کے مترادف ہے جس کا مقصد فلسطینی عوام کو اُن کی زندگیوں سے محروم کرنا اور اُن کی نسل کو ختم کرنا ہے۔
اگرچہ اقوام متحدہ اور متعدد انسانی حقوق کی تنظیمیں امدادی کام کررہی ہیں مگر اسرائیلی پابندیوں اور جارحیت کی وجہ سے امداد کی مقدار نہایت محدود اور غیرمؤثر ہے ۔
دو سال سے اسرائیل غزہ کو ایک ناقابل رہائش دوزخ بنانے کی ظالمانہ کوششوں میں مصروف ہے ۔ اسی طرح مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی مسلسل توسیع کا مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کے امکان کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ہے ۔
برطانیہ ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک کے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنا خوش آئند ضرور ہے تاہم وہ غزہ میں پیدا کی جانے والی قحط کا سدباب نہیں ۔ اس لئے فی الفور جنگ بندی کی کاوشیں ہونی چاہئے۔ بعد ازاں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی کاوشیں ہونی چاہئے ۔
پس غزہ میں جاری انسانی بحران ، جس کی بنیادی وجہہ بھوک کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرنا ہے ، نہ صرف فلسطینی عوام کیلئے بلکہ عالمِ انسانیت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے ۔ عالمی برادری کی موجودہ ناکامی نے اس المیہ کو مزید طول دیا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ تمام بین الاقوامی ادارے ، ممالک ، سیول سوسائٹی مل کر اس انسانی المیہ کا خاتمہ کریں ، انصاف قائم کریں اور غزہ کی عوام کو اُن کے بنیادی حقوق دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔