تمام عمر سفر ہی اگر مقدر ہے
تو پھر پرندوں کو اُڑنے کا حوصلہ بھی دے
غزہ میں جنگ بندی کا سلسلہ جاری ہے ۔ حماس کی جانب سے اسرائیلی قیدیوں کو رہا کردیا گیا ہے ۔ تقریبا تعداد مکمل ہوچکی ہے ۔ ساتھ ہی اسرائیل کی جانب سے بھی فلسطین کے سینکڑوں قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے ۔ کئی قیدی ایسے ہیں جو برسوں کے بعد اپنے گھروں کو واپس ہوئے ہیں اور اپنے افراد خاندان سے ملاقات کر پائے ہیں۔ غزہ جنگ بندی معاہدہ کے تحت ان قیدیوں کی رہائی عمل میںآئی ہے اور اب تک معمولی سی خلاف ورزیوں کے باوجود یہ جنگ بندی جاری ہے ۔ درمیان میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینی عوام کو دوسرے ممالک میں بسانے کے منصوبے کا اظہار کیا گیا تھا ۔ مصر اور اردن سے کہا گیا تھا کہ وہ فلسطینی باشندوں کو اپنے ملک میں جگہ دیں۔ تاہم ایسا نہیں ہوا ۔ ٹرمپ نے غزہ پر قبضہ کرلینے اور اسے حاصل کرلینے کے منصوبے کا بھی اظہار کیا تھا ۔ تاہم اب آثار و قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ اس منصوبے کو خیرباد کہنے والے ہیں۔ انہیں مصر اور اردن کے علاوہ دوسرے ممالک سے اپنے منصوبے اور تجویز پر کوئی مثبت رد عمل حاصل نہیں ہوا تھا جس کے بعد انہوں نے اس منصوبے کو ترک کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔ اب جبکہ جنگ بندی پر پیشرفت جاری ہے اور قیدیوں کی رہائی کا مسئلہ بھی مکمل ہونے والا ہے ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ غزہ کی تعمیر نو اور وہاں عام زندگی بحال کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے ۔ اس کیلئے منصوبے بنائے جائیں اور دنیا بھر کے انصاف پسند ممالک کو اس میںشامل کرتے ہوئے ان منصوبوں کو عملی شکل دینے کی کوشش شروع کی جانی چاہئے ۔ غزہ شہر جو ایک جیتا جاگتا شہر تھا اور جہاں زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ چل رہی تھی اب ایک ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ وہاں صرف ویرانے دکھائی دے رہے ہیںاور سناٹے شور مچارہے ہیں۔ جنگ بندی کا جو معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق غزہ کی تعمیر جدید بھی کی جانی ہے ۔ اس پر ابھی سے توجہ دیتے ہوئے منصوبے تیار کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ اس میں تاخیر نہیں کی جانی چاہئے ۔ تعمیر جدید کے منصوبے تیار کرنا بھی آسان کام نہیں ہے اور اس کیلئے بھی وقت درکار ہوسکتا ہے ۔
غزہ میں رہنے بسنے والے فلسطینی باشندے کئی ماہ سے انتہائی نامساعد اور غیر انسانی حالات میںزندگی گذار رہے ہیں۔ انہیںنہ غذا دستیاب ہے اور نہ پانی ٹھیک طرح سے دستیاب ہوا تھا ۔ انہیں ادویات کی تک قلت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور کئی زخمی ادویات دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے زندگی ہار بیٹھے تھے ۔ وہ پناہ گزین کیمپوں میںانتہائی مشکل صورتحال کا شکار ہوگئے تھے ۔ اب جبکہ جنگ بندی کا معاہدہ نافذ ہوگیا ہے اور اس کے ابتدائی مرحلہ کی تکمیل قریب ہے تو آئندہ مراحل کیلئے سرگرم ہونے کی ضرورت ہے ۔ امریکہ ہو یا دوسرے ممالک ہوں انہیں اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔غزہ میںجنگ تو ختم ہوگئی ہے لیکن اس کے اثرات آج بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ غزہ کے فلسطینی شہری اپنے گھروں کو تو واپس ہوئے ہیں لیکن ان کے گھروں کی جگہ اب صرف ملبے کے ڈھیر باقی رہ گئے ہیں۔ ملبہ کی صفائی بھی ایک بہت بڑا مرحلہ ہے ۔ فلسطینیوں کو بھی پرسکون زندگی فراہم کی جانی چاہئے اور اس کیلئے جنگ بندی کے آئندہ مراحل پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔ نہ صرف امریکہ بلکہ دوسرے ممالک کو اور عالمی اداروں کے علاوہ اسلامی و عرب ممالک کو اس معاملے میں آگے آناچاہئے اور فلسطینیوں کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تجاویز پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ نہ صرف تجاویز پیش کی جانی چاہئے بلکہ فلسطینیوں کیلئے زندگی سہل اور معمول کے مطابق بنانے کیلئے دل کھول کر اور فراخدلانہ امداد بھی فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔
ماہ رمضان المبارک بھی ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے ۔ ایسے میں فلسطینیوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔فوری طور پر ماہ رمضان میںراحت رسانی پر توجہ دیتے ہوئے غزہ کی تعمیر جدید کیلئے بھی تیاریاں شروع کی جانی چاہئے۔ یہ کام بھی وقت طلب ہے ۔ کوئی چند دن یا چند ماہ میں مکمل ہونے والا کام نہیں ہے ۔ اس کیلئے سرمایہ ضروری ہوگا ۔ وقت درکار ہوگا اور وسائل مجتمع کرنے ہونگے ۔ عالمی اداروں اور خاص طور پر اقوام متحدہ کے ساتھ امریکہ ‘ علاقہ کے عرب ممالک وغیرہ کو اس جانب فوری توجہ کرتے ہوئے حرکت میں آنا چاہئے تاکہ فلسطینی عوام کو ایک بار پھر عام زندگی جینے کا موقع مل سکے ۔