سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ اگر کوئی شخص غسل کرتے ہوئے تمام بدن کو اچھی طرح صابن اور پانی سے دھولے، کلی بھی کرلے اور ناک بھی پانی سے صاف کرلے لیکن نہ تو اس نے وضو کی نیت کیا اور نہ ترتیب وار اعضاء وضو کو دھویا، معلوم کرنا یہ ہے کہ اس طرح کا غسل اور وضو مکمل ہوا یا نہیں یا پھر اس کو دوبارہ وضو کرنا پڑیگا ؟ بینوا تؤجروا
جواب : غسل میں تین امور فرض ہیں : کلی کرنا ، ناک میں پانی چڑھانا اور سارے بدن پر پانی ڈالنا۔ فتاوی عالمگیری ج ۱ ص ۱۳ باب الغسل میں ہے۔ الفصل الاول فی فرائضہ وھی ثلاث المضمضۃ والاستنشاق و غسل جمیع البدن۔ فرض کی تکمیل سے غسل ہوگیا۔ غسل میں خودبخود وضو بھی ہوجاتا ہے۔ فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
محمد مظہر حسین ورنگلی
لڑکی کی شادی اور معاشی بوجھ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے لڑکیوں کی پیدائش کو مبارک اور ان کی تربیت و شادی کی ذمہ داری سے سبکدوشی پر جنت کی بشارت دی ہے۔ لیکن جیسے جیسے لڑکی سن بلوغ کو پہنچتی ہے تو والدین کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون لٹ جاتا ہے۔ ایک طرف لڑکی کی شادی کی فکر تو دوسری طرف اپنی معیشت کے لٹنے کا خوف، بالآخر وہ گھڑی بھی آجاتی ہے، جب کافی دوڑ دھوپ کے بعد لڑکی کی شادی طے پاتی ہے اور پھر اس غریب کی برسوں کی خون پسینہ کی کمائی جوڑے کی رقم اور جہیز کی تکمیل میں شادی کی نذر ہوجاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ معیشت کی تباہی کا یہ سلسلہ برسوں چلتا رہتا ہے، مثال کے طورپر پہلا بلاوا، آخری جمعگی، پہلی عید وغیرہ، جس میں کپڑے، سلامی اور دعوت کے نام پر کثیر رقم کا صرفہ برداشت کرنا پڑتا ہے اور پھر جب داماد صاحب ایک عدد بچے کے باپ بنتے ہیں تو دوا خانہ کے جملہ اخراجات اور چھلہ چَھٹی کے نام پر فضول تقاریب کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح ایک لڑکی کی پیدائش سے لے کر، پھر اس لڑکی کے اولاد ہونے تک ایک باپ کو ہولناک پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان باتوں پر غور کیجئے!
٭ کیا یہ ظلم نہیں کہ ایک کمزور اور بے بس لڑکی کی عفت و عصمت کی حفاظت کے لئے لڑکی کے والدین سے بڑی بڑی رقمیں اور قیمتی جہیز طلب کیا جائے؟۔ ٭ کیا کسی مسلمان کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی معیشت کو اس طرح برباد کرے؟۔٭ کیا لڑکی کا باپ ہونا کوئی گناہ ہے؟ جس کا کفارہ نقد اور جہیز کی صورت میں لازماً ادا کرنا پڑے؟۔
یہ کیسا ظلم ہے کہ ایک باپ مفت خدمات انجام دینے کے لئے اپنی بیٹی بھی دے اور ساتھ میں موٹی رقم اور قیمتی سامان بھی دے!۔ افسوس ہے ایسے نوجوانوں پر، جو لڑکی کے والدین سے مال اور جہیز کے طلبگار ہیں۔ تف ہے ان کی جوانی و مردانگی پر، جو لڑکی کے والدین کی رقم پر نہ صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں، بلکہ سسرال سے مانگی ہوئی چیزوں کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ انھیں اتنا بھی احساس نہیں کہ انھوں نے جن قیمتی اشیاء اور جوڑے کی رقم کو جہیز کے نام پر حاصل کیا ہے، اس کے لئے کسی کو اپنے گھر جائیداد سے محروم ہونا پڑا ہوگا یا پھر سودی قرض کے ناسور کو گلے لگانا پڑا ہوگا۔
افسوس کہ اللہ تعالی نے جس امت کو دنیا سے ظلم کا خاتمہ اور انصاف کے بول بالا کی ذمہ داری سونپی ہے، وہی آج ظالم بنی ہوئی ہے۔ یہ کم نصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ آج مسلمان نہ صرف اپنے خیر امت ہونے کو فراموش کرچکے ہیں، بلکہ اپنے اعمال فاسدہ کے ذریعہ اسلام کی شبیہ کو داغدار اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو پامال کر رہے ہیں، جس کا خمیازہ یقیناً روز آخرت بھگتنا پڑے گا۔