غم ہجر گوارا نہ ہوا

   

محمد مجیب احمد
وہ ایک اُداس صبح تھی جس وقت نوجوان شہاب کو ہلکی ہلکی حرارت تھی۔ پھر جوں جوں علاج کیا بخار کی شدت میں اضافہ ہونے لگا اور رات دیر گئے بخار نے اسے بے سدھ کردیا تھا۔ بخار کے ساتھ اسے تنفس کا مسئلہ درپیش ہوا تو فوری اسپتال سے رجوع کیا گیا جہاں اس کی کورونا ٹسٹ رپورٹ مثبت آئی تھی۔ دوران علاج آکسیجن کی سطح پست ہونے لگی تھی۔ اس کی بگڑتی صحت پر سب تشویش میں مبتلا ہوکر دعائیں مانگ رہے تھے۔ ہر کسی کے چہرے پر انجانا خوف چھایا ہوا تھا اور وہ مایوسی کے عالم میں بار بار اس کی کیفیت دریافت کررہے تھے۔ رفیدہ کا تو رو روکر برا حال تھا۔ جب سے شہاب اسپتال میں شریک ہوا تھا۔ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ ہر پل اس کی صحت یابی کیلئے دعائیں مانگ رہی تھی۔ ’’یا اللہ شابو! کی زندگی بچالینا میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی‘‘۔ وہ شہاب کی نازک حالت اور آنے والے لمحات کے تصور سے لرز اُٹھی تھی۔ کیا خبر کہ آنے والا ظالم لمحہ انہیں جدا کردے۔ یہی خوف اسے بے چین و بے قرار کررہا تھا!

شہاب ایک وجیہہ اور صالح فطرت کا نوجوان تھا۔ وہ رفیدہ کا رشتہ دار اور منگیتر تھا۔ دونوں بچپن میں ساتھ ساتھ پڑھے، کھیلے اور بڑے ہوئے تھے۔ جب انہوں نے کالج کی تعلیم مکمل کرلی تو ان کی منگنی کردی گئی تھی۔ جس کے باعث دونوں گھرانوں میں قربت مزید بڑھ گئی تھی۔ منگنی ہونے پر شہاب اور رفیدہ کی خوشیاں دیدنی تھیں۔ انہیں یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ان کدونوں جہاں کی نعمت مل گئی ہو۔ رفیدہ نے اپنے من کے تمام جذبے شہاب کی پرکشش شخصیت کی نذر کردیئے تھے اور شہاب بھی چکور بن کر اسے اپنی چاہتوں کا محور بنا لیا تھا۔ ایک دفعہ اس نے رفیدہ سے کہا۔ رفو! محبت اعلیٰ و ارفع جذبے اور اظہار کا نام نہیں بلکہ جاں نثار کردینے کے جذبے کا نام ہے۔ تم میری زندگی میں آنے والی پہلی اور آخری لڑکی ہو‘‘۔

ہاں۔ شابو! محبت کی تڑپ ہی محبت کی معراج ہوتی ہے۔ محبت کرنے والے صلہ کی تمنا نہیں کرتے۔ وہ بس اسی کو سینہ سے لگاکر جیا کرتے ہیں‘‘۔
ان کی محبت قوس قزح کی طرح بکھری ہوئی تھی۔ وہ ایک دوجے کو دیکھ کر نہایت مسرور ہوتے تھے اور آپس میں ملنے پر ان کے مضطرب دلوں کو قرار آجاتا تھا۔اس سوگوار شام کو تمام اہل خانہ، رشتہ دار اور احباب سر جھکائے اسپتال کے آگے فاصلوں سے کھڑے تھے۔ شہاب تین روز تک موت و زیست کی کشمکش کے بعد سب کو داغ مفارقت دے کر سوئے عدم چلا گیا تھا۔ ڈاکٹروں کی انتھک کوششوں اور موثر علاج کے باوجود وہ صحت یاب نہ ہوسکا تھا۔ ماحول میں افسردگی اور مردنی طاری تھی۔ کسی میں ایک دوسرے سے آنکھ ملانے اور کچھ کہنے کا حوصلہ نہ تھا۔ سب کی متلاشی آنکھیں کسی کی منتظر تھیں، جیسے ان کو شہاب کا انتظار ہو۔ مگر دور دور تک حزن و ملال کے سواء کچھ بھی نہ تھا۔ رفیدہ کو ایسا لگا کہ اس کے وجود کی عمارت ڈھے گئی ہے اور اسی کی روح اس ملبے تلے دب کر رہ گئی ہو۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اتنا روئے کہ اس کی ساری ہستی آنسوؤں ہی میں بہہ جائے۔ آہ! میں نے تو ہر گھڑی شابو کی مکمل صحت یابی اور طویل زندگی کے لئے دعائیں مانگیں تھیں۔ پھر یہ کیا ہوگیا؟ ہماری زندگی کا خوشگوار موسم خزاں رسیدہ کیوں ہوگیا؟ عین بہاروں میں یہ خزاں کہاں سے آگئی؟ ہائے۔ شابو! اب اس دنیا میں نہیں رہا‘‘۔ رفیدہ اپنے آپ بڑبڑانے لگی۔ پھر رات کے پہلے پہر اسپتال عملہ کی راست نگرانی میں شہاب کی تدفین عمل میں لائی گئی۔ اس موقع پر لاک ڈاؤن ہونے کے سبب صرف چند قرابت داری ہی موجود تھے۔ لوگ آخری دیدار سے بھی قاصر تھے۔ اس کی ناگہانی موت دونوں خاندانوں کے لئے بڑی ہی قیامت خیز ثابت ہوئی تھی۔ کسی کو بھی یہ گمان نہیں تھا کہ حالات اچانک اس طرح موڑ اختیار کریں گے۔ سب کے لئے یہ سانحہ ناقابل فراموش حقیقت تھی۔ کورونا سیلاب سب کی خوشیاں بہاکر لے گیا تھا!

رفیدہ اپنے منگیتر شہاب کی غیرمتوقع رحلت پر نہایت دل گرفتہ اور رنجیدہ تھی۔ وہ غم سے نڈھال ہوکر متعدد مرتبہ بے ہوش ہوتی جارہی تھی۔ اس المیہ کو بھلانا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ جس نے اس کے سارے ارمانوں اور آرزوؤں کو یکلخت تہس نہیں کردیا تھا۔ وہ ماضی کی رنگین یادوں اور مستقبل کے ادھورے سپنوں میں کھوکر رہ گئی تھی۔ اس کی ساری یادیں اور سپنے شہاب سے وابستہ تھے۔ وہ نہ رہا تو کچھ بھی نہ رہا۔ نہ وہ منفرد اچھوتی ہستی تھی اور نہ ہی وہ پیار تھا۔ رفیدہ کی شخصیت پر شہاب کی چاہت کی پرچھائیاں چھائی ہوئی تھیں۔ جسے کسی بھی طرح جدا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ وہ اس کے دل کے ہر گوشہ میں زندہ تھا!
جواں مرگ شہاب کی سانحاتی وفات رفیدہ کے لئے ناقابل یقین سچائی بن کر رہ گئی تھی۔ شہاب کا خوبصورت اور مسکراتا چہرہ ہرشانیہ اس کے سامنے تھا۔ موت کے بعد وہ اور بھی اس کے قریب ہوگیا تھا۔ وہ خود کو ذہنی طور پر اس کے نزدیک پارہی تھی۔ یہ شہاب کا اٹوٹ پیار تھا جو اس کو باندھ رکھا تھا۔ اس کی جدائی رفیدہ کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ وہ اس کے نازک کندھوں پر فرقت کا بوجھ ڈال گیا تھا۔ اسے زندگی کا سارا سفر اس بوجھ کو سہتے ہوئے صبر سے طئے کرنا تھا۔ اسے اپنی محبت اور وفا کے پھولوں کو اپنے من کے آنگن میں سدا سرسبز و شاداب رکھنا تھا۔ وہ اپنی قسمت میں لکھی فرقت کی اذیت کو سہنے تیار تھی۔ شہاب کی یاد میں خود کو مٹا دینا چاہتی تھی۔ اپنی ساری حیات اس کے نام منسوب کردینے کی متمنی تھی۔ وہ اپنی ہستی کو شہاب کی امانت سمجھتی تھی۔ اس کی سانس کا ہر لحظہ اس کے لئے وقف تھا۔ اس کے تن اور من میں شہاب کی محبت سرایت کرگئی تھی۔ اس کے خیالوں اور سوچوں پر اس کا بسیرا تھا۔ اسے دنیا میں شہاب سے زیادہ کوئی عزیز نہ تھا۔ وہ اپنے دل پر کسی اور کی پرچھائی پڑنے نہیں دیتی تھی۔ شہاب نے اسے ٹوٹ کر چاہا تھا۔ کوئی اس کی جگہ کیسے لے سکتا تھا!

رفیدہ کے شب و روز شہاب کی محبت اور یاد میں گزرتے رہے۔ وہ ہر وقت اداس رہنے لگی تھی۔ اس کے لبوں کی دلفریب مسکراہٹ چھین گئی تھی۔ اس کی خمار آلود آنکھیں ہر لمحہ آنسو بہانے لگی تھیں۔ یہ رنج و الم وہ زیادہ عرصہ برداشت نہ کرسکی اور بیمار ہوگئی۔ کسی چارہ گر کے پاس اس کا علاج نہ تھا۔ وہ اور شہاب کورونا، کرفیو اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنی شادی موخر کردیئے جانے پر قدرے مایوس و ملول تھے اور انتظار کے ایسے دور میں شہاب کا گزر جانا اس کے لئے سوہان روح سے کم نہ تھا۔ یہ جدائی وہ سہار نہ سکی اور بڑی ہی خاموشی سے اس کے پاس پہنچ گئی تھی!