غنڈہ گردی کی سیاست

   

Ferty9 Clinic

وقت کے زخم سل بھی جاتے ہیں
عمر رفتہ پلٹ بھی آتیہے
غنڈہ گردی کی سیاست
مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے اعلان نے ایسا لگتا ہے کہ ریاست کو ایک میدان جنگ میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ ویسے تو ملک میں اکثر و بیشتر کسی نہ کسی ریاست میں انتخابات کا عمل جاری رہتا ہے اور وہاں سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مقابلے ہوتے رہتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی مغربی بنگال میں جیت حاصل کرنے کیلئے غنڈہ گردی پر اتر آئی ہے ۔ بی جے پی اپنی مخالفت کرنے پر کسی چیف منسٹر کو بھی بخشنے تیار نظر نہیں آتی اور چیف منسٹر پر بھی حملہ کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا ۔ جب مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتابنرجی نندی گرام سے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرچکیں تو شام میں ان پر حملہ کردیا گیا ۔ حالانکہ ابھی یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ یہ حملہ کس نے کیا ہے اور حملہ آور کون تھے لیکن کچھ اشارے ضرور یہ پتہ دے رہے ہیں کہ بی جے پی کی ایماء پر یہ حملہ کیا گیا ہے ۔ خود ممتابنرجی اور ترنمول کانگریس نے بھی یہ الزام عائد کیا ہے کہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر بی جے پی نے اس طرح کا حملہ کروایا ہے ۔ممتابنرجی کو کار میں بیٹھتے ہوئے کچھ افراد نے حملہ کا نشانہ بنایا اور اس میں وہ زحمی بھی ہوئی ہیں۔ ان کو گہرے زخم بھی آئے ہیں اور وہ دواخانہ میں شریک کردی گئیں۔ ممتابنرجی ریاست میں ترنمول کانگریس کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں اور انہوں نے دو معیاد تک مغربی بنگال میں حکومت کی ہے اور وہ تیسری معیاد کیلئے عوام سے رجوع ہوئی ہیں۔ ایسے میں بی جے پی انہیں اقتدار سے بیدخل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ عوام کے درمیان جا کر عوام کی تائید کے ذریعہ اگر ممتابنرجی کو اقتدار سے بیدخل کیا جاتا ہے تو اسکا خیر مقدم کیا جائیگا اور ایسا کیا جانا چاہئے تاہم کم از کم ہندوستان میں غنڈہ گردی کی قیادت کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے ۔ اگر وقت کی چیف منسٹر کو حملہ کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔ یہ ملک کے انتخابی عمل کی دھجیاں اڑانے جیسا عمل ہے جس سے ہماری عظیم جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہوتی جائیں گی ۔ عوام کی تائید کے ذریعہ حکومتیں قائم کرنے کی بجائے سیاسی مخالفین کو حملوں کا نشانہ بناتے ہوئے کمزور کیا جاتا ہے تو یہ افسوسناک عمل ہوگا ۔
ممتابنرجی نے بنگال میں تین دہوں طویل کمیونسٹ اقتدار کو ختم کرتے ہوئے ایک نئے دور کا آغاز کیا تھا ۔ وہ حتی المقدور ریاست کی بہتری اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کر رہی ہیں۔ تاہم بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی قیمت پر انہیں اقتدار سے بیدخل کرنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ تقریبا دو سال سے بنگال کو نشانہ بناتے ہوئے مختلف ہتھکنڈے اختیار کئے گئے ہیں۔ کہیں معمولی نوعیت کا بم دھماکہ کروایا گیا تو کہیں سیاسی تشدد برپا کیا گیا ۔ کہیں کسی مسئلہ کو ہندو ۔ مسلم رنگ دیا گیا تو کہیں جئے شری رام کے نعرے سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ مقامی طور پر نئے قائدین کو پروان چڑھانے میں ناکامی کے بعد خود ترنمول میں انحراف کو فروغ دیا گیا ۔ ترنمول کے قائدین اور بنگالی فلمی ستاروں کو اپنی صفوں میں شامل کرتے ہوئے بی جے پی اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی کی صفوں میں بنگال میں سیاسی پس منظر والے قائدین کی تعداد کم ہی نظر آئے گی صرف عوامی مقبول چہروں کی بنیاد پر بی جے پی انتخابات میں مقابلہ کرنا چاہتی ہے ۔ اس کے پاس بنگال کے عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوئی اسکیم یا منصوبہ نہیں ہے ۔ اس کے برخلاف اس کو مہنگائی اور خاص طور پر پٹرول و ڈیزل کے علاوہ گیس کی قیمتوں میں مسلسل مہنگائی کی وجہ سے عوام کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی روایتی اور بنیادی سیاست کرنے کی بجائے فلمی ستاروں کی چکاچوند کی بنیاد پر انتخابات جیتنا چاہتی ہے مسائل کی بنیاد پر نہیں۔
ممتابنرجی ایک عوامی لیڈر ہیں ۔ انہوں نے نچلی سطح سے ترقی کی ہے ۔ کانگریس میں رہتے ہوئے بھی انہوں نے جدوجہد کی تھی ۔ بعد میں خود اپنی علیحدہ جماعت انہوں نے قائم کی ۔ ایک طاقتور سمجھے جانے والے کمیونسٹ اقتدار کو شکست دینے میں انہیں کامیابی ملی ہے ۔ وہ عوام کی نبض کو سمجھنے والی لیڈر ہیں ۔ بی جے پی کوا حساس ہے کہ انہیں آمادانہ و منصفانہ انتخابی عمل میں شکست دینا آسان نہیں ہوگا اسی لئے ان پر بوکھلاہٹ میں حملہ کیا گیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غنڈہ گردی کی سیاست کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے بلکہ جمہوری عمل کو مستحکم کرنے والی جماعتوں اور امیدواروں کا انتخاب کیا جائے ۔ غنڈہ گردی کی سیاست سے نہ کسی کا بھلا ہوا ہے اور نہ ہی کبھی ہوسکتا ہے ۔ اس سے جمہوریت کوہ ی نقصان ہوگا ۔