غیرمسلمین سے برادرانہ تعلقات اسلامی نظریہ

   

ہندوستان میں شدت پسندو فرقہ پرست عناصر روز بروز اپنی جڑوں کو وسیع اور مضبوط کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں ، جس سے ہندوستان کاسیکولر ڈھانچہ کمزور ہوتا جارہا ہے ۔ ان حالات میں اپنے وطن عزیز سے محبت اور وابستگی کاتقاضا ہے کہ جس ملک میں ہم رہتے ہیں ، اس سرزمین کو فتنہ و فساد ، ظٔلم و زیادتی ، نفرت و عداوت ، قتل و خون ، تعصب اور جانبداری سے محفوظ رکھا جائے اور اپنے ملک میں امن و سلامتی، پیار و محبت ، بقائے باہم اور مذہبی رواداری کی فضاء کو ہموار رکھتے ہوئے دیگر ممالک میں اپنے ملک کا نام بلند رکھا جائے ۔
وطن سے محبت ایک فطری امر ہے ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم ہجرت کے موقعہ پر جب غارثور سے سوئے مدینہ روانہ ہوئے تو مکہ مکرمہ پر حسرت بھری نگاہ ڈالی اور ارشاد فرمایا : ’’اے مکہ ! تو مجھے تمام مقامات سے زیادہ عزیز ہے ، مگر کیا کروں تیرے باشندے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے‘‘۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے آبائی وطن مکہ مکرمہ میں ایام جاہلیت کے دوران جب ظلم و زیادتی سے نبرد آزما ہونے ایک باہمی اتحاد قائم ہوا اور ظلم کے خلاف ’’حلف الفضول‘‘ کے نام سے موسوم معاہدہ طئے پایا تو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے جوش و خروش سے اس میں حصہ لیا۔ معاہدہ یہ تھاکہ اگر مکہ میں کسی پر ظلم ہو تو ہم اس کی مدد کو دوڑیں گے اور ظالم کو مکہ میں رہنے نہیں دیا جائیگا ۔بعثت کے بعد بھی نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم فرمایا کرتے : میں نے حلف اُٹھایا ہے ۔ آج بھی اگر کوئی مجھے اس کی دہائی دے تو میں ضرور اس کی مدد کرونگا اور قیمتی سرخ اونٹوں کے قطار کے عوض بھی اس فریضہ سے دستبردار ہونے آمادہ نہ ہونگا ۔ ( ابن الجوزی : الوفاء : ۱۳۸۔۱۳۶)
ہندوستان میں قابل قدر تعداد مسلمانوں کی ہے ، ہندوستان کے مسلمان نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ ساری دنیا میں اسلام کے پرچم کو بلند کرنے میں نمایاں رول ادا کرسکتے ہیں لیکن شومئہ قسمت ہم مسلمان احساس کمتری کے شکار ہیں اور خوداعتمادی جیسی عظیم نعمت سے محروم ہیں۔ ہم اپنی اسلامی تہذیب و شناخت کے تحفظ کی خاطر غیرمسلم برادران وطن سے دور رہتے ہیں ان سے میل ملاپ ، تعلقات ، رواداری ، غمخواری ، حسن سلوک ، تیمارداری ، معاملات وغیرہ میں محتاط رہتے ہیں ۔ احتیاط و دوری بھی غیرمسلم ذہنوں سے غلط فہمیوں کو زائل کرنے میں ایک اہم رکاوٹ بنی رہی ۔ یہ احتیاط اور دوری اس وقت اختیار کی جاتی ہے جب آدمی اپنے ذات میں کسی قسم کی کمی ، ضعف اور نقص محسوس کرتا ہے اور جب اس کو اپنی ذات پر یقین ، اپنی تہذیب پر اطمینان اور اپنے نفس پر اسلامیت کا غلبہ محسوس کرتا ہے تو وہ کسی بھی ملک اور کسی بھی مقام پر ، دوسری تہذیبوں سے متاثر ہوئے بغیر اپنی تہذیب و تمدن کے اثرات کو دوسروں کے قلب و دماغ میں نقش کردیتا ہے ۔
اسلام ، غیرمسلمین کے ساتھ عدل و انصاف اور نیک برتاؤ سے منع نہیں کرتا ، بلکہ جہاں بندوں کے آپسی تعلقات اور ان کے درمیان صلہ رحمی اور حسن سلوک کا تعلق ہے تو قرآن مجید نے مسلم اور غیرمسلم کی تفریق نہیں لکھی بلکہ مطلق فرمایا : ’’تم اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ بھی ، یتیموں کے ساتھ بھی ، اور غرباء و مساکین کے ساتھ بھی اور قریب والے اور دور والے پڑوسی کے ساتھ بھی ، ہم نشین کے ساتھ بھی اور راہگیر اور مسافر کے ساتھ بھی ، تمہارے غلام و باندیوں کے ساتھ بھی ۔ یقینا اﷲ تعالیٰ ایسے شخص کو پسند نہیں فرماتا جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہو اور فخر و غرور کرتا ہو ‘‘۔ (سورۃ النساء ۔ ۳۶)
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم غیرمسلمین کے ساتھ ملاقات کرتے ، مصافحہ فرماتے ، خیریت دریافت کرتے ، ان کی دعوتوں کو قبول فرماتے ، ان کی مہمان نوازی فرماتے اور ان کی عیادت بھی فرماتے ۔ ان کے گھروں میں ان کے برتنوں میں تناول فرماتے ۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے دین ، مذہب پر سختی کے ساتھ کاربند رہتے ہوئے ، اپنے تشخص و امتیاز کو برقرار رکھتے ہوئے ، غیرمسلم برادران وطن و ہمسایہ پڑوسیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار رکھیں ۔ ایک دوسرے کے قریب ہوں اور ظلم و ستم ، شر و فساد ، فتنہ و شرانگیزی اور بدامنی کے خلاف متحدہ طورپر جدوجہد کریں اور ظالم و جابر ، باطل و سفاک مذہبی منافرت پھیلانے والوں کا منھ توڑ جواب دیں۔
ہجرت درحقیقت انتہائی نازک اور سنگین موقعہ تھا ، کسی قسم کی بے احتیاطی برے نتائج کا پیش خیمہ ہوسکتی تھی ۔ ایسے وقت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے غیرمعمولی احتیاط اور بہترین حکمت عملی اختیار کی ۔ اس سفر ہجرت میں اہم پہلو یہ بھی تھا کہ غیرمسلم جان کے دشمن ہونے کے باوجود نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے مدینہ منورہ کے راستہ میں اپنے ساتھ راستہ کی رہنمائی کے لئے عبداﷲ بن اریقط کو منتخب کیا تھا ۔ وہ ایک غیرمسلم تھے ، جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ لیکن نہایت بااعتماد اور قابل بھروسہ تھے۔
سنہ ۲ ہجری میں جنگ بدر میں جب مسلمانوں کو فتح ہوئی تو اہل مکہ نے دوبارہ ایک وفد حبشہ کو روانہ کیا تاکہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی سے اجازت لیکر مسلمانوں کو واپس لائیں اور ان کو ایذا و تکلیفیں دی جائیں۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو اطلاع ہوئی تو آپ نے عمرو بن امیہ ضمری کو اپنا سفیر بناکر نجاشی کے پاس بھیجا تاکہ وہ مسلمانوں کی سفارش کریں اور حکمراں کو ان کی حفاظت کے لئے آمادہ کرسکیں۔ حالانکہ عمرو بن امیہ ضمری اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔
سیرت طیبہ کے یہ تابندہ نقوش ہندوستانی مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہیں اور انھیں ہمت و حوصلہ عطا کرتے ہیں کہ وہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں سیکولر برادران وطن کے ساتھ ملکر وشواہندوپریشد ، بجرنگ دل ، سناتن سنستھا ، شری رام سینا ، دھرم شکتی سینا ، ابھینو بھارت ، ہندو جن جاگرن سمیتی کے ناپاک عزائم کے خلاف مشترکہ جدوجہد کریں تاکہ اپنے ملک و وطن کو نفرت و عداوت کے کینسر سے نجات دلاسکیں اور آنے والی نسل کی حفاظت کا سامان کرسکیں۔ مخفی مباد کہ اسلام غیرمسلم کے ساتھ اس درجہ قلبی تعلق سے منع کرتا ہے جس میں مسلمان ان کے قریب ہوکر ان کی تہذیب ، رہن سہن ، طرز معاشرت اور مزاج کو قبول کرلیں۔ اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے ساتھ زندگی گزارنے میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں۔