فتنوں کے خلاف جہد مسلسل کی ضرورت

   

یہ بات کسی بھی باشعور شخص کیلئے محتاج دلیل نہیں ہے کہ اس امت کے معاملات میں علماء امت کا کردار مرکزی اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے، امت میں علماء کی سرگرمیوں اور اُن کے ساتھ مسلمانوں کے رابطے کی کیفیت کا، امت کے خیر وشر میں بڑا دخل ہے۔ اگر علماء اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں فعال اور مستعد ہیں اور مسلمانوں کا اُن کے ساتھ رابطہ استوار ہے تو امت میں پیداہونے والے فتنوں کا توڑ ہوتا رہتا ہے اور اگر یہ دونوں پہلو کمزور ہیں تو امت آسانی سے فتنوں کا شکار ہوتی رہتی ہے،اس لیے ضروری ہے کہ علماء اپنی ذمہ داریوں کے تئیں ہروقت بیدار اورمستعد رہیں۔ایمان کیلئے خطرہ بننے والے فتنوں کا مسئلہ: اس سے مراد خاص طور پر قادیانیت اوراس سے قریب تر، شکیلیت کافتنہ ہے۔ قادیانیت کا فتنہ تو سوبرس سے زیادہ قدیم فتنہ ہے اوراس کے پس منظر میں علماء اسلام اور مسلمانوں کی تنظیموں اور اداروں کی جدوجہد سے تاریخ کا ایک باب وجود میں آیا ہے۔ اسی طرح اس کے علمی تعاقب کے سلسلے میں ایک پورا کتب خانہ مرتب ہوگیا ہے، پھر بھی یہ فتنہ نئے نئے بال وپر نکالتا رہتا ہے اور ہر سطح پر اس کے تعاقب کے لئے سرگرم رہنے کی ضرورت آج بھی باقی ہے۔لیکن اس سے ملتا جلتا شکیلیت کا فتنہ اس وقت بہت تیزی سے عصری تعلیم یافتہ طبقے اور دین سے مانوس نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اس فتنہ کی عمر غالباً دو دہائی سے کم ہی ہے اوراس کا بانی ایک نیم تعلیم یافتہ شخص ہے جو ابتداء میں دینی کاموں سے مربوط رہاہے، پھر نہ جانے کدھر سے گمراہی نے اسے گھیرا اوراس کے دماغ میں مہدی ہونے کا دعویٰ کرنے کا سودا سماگیا اور آہستہ آہستہ اس کا ایک حلقہ بنتا چلا گیا۔ آج وہ فتنہ مسلسل بڑھ رہا ہے اورمسلم نوجوان اس کا شکار ہورہے ہیں اور یہ بات بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ ان فتنوں کا شکار ہونے کا مطلب ایمان سے محروم ہونا ہے۔