فرانس کے ابوجہل کی کارستانی

   

محمد عثمان شہید ایڈوکیٹ

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تامروز
چراغ مصطفوی ؐ سے شرارِ بولہیی
تاریخ انسانیت یہ ہیکہ وقتاً فوقتاً طاغوتی قوتوں سے حق دبانے کے لئے داعیٔ اسلام سے نبردآزماں رہی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے چراغ مصطفویؐ کو پھونکوں سے بجھادیا جائے لیکن وہ اپنی کوششوں میں تاحال کامیاب نہ ہوسکے۔ کیونکہ پھوکوں سے یہ چراغ بجھائے نہ جائیگا۔ اس کی حفاظت خدا خود کررہا ہے۔
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
ابوجہل ہر زمانے میں نمودار ہوتا ہے صرف اس کی شکل بدلتی رہتی ہے لیکن خصلت نہیں بدلتی عادت نہیں بدلتی نہ ہی فطرت بدلتی ہے۔ اس مرتبہ پھر ایک بار کارٹونسٹ چارلی ہبڈو اور اس کے قبیل کے عناصر کی شکل میں ابوجہل نمودار ہوا ہے اور چراغ مصطفویؐ سے ستیزہ کا رہا ہے۔ اس کے خلاف مسلمانوں کا غم و غصہ فطری ہے لیکن صدر فرانس مسٹر ایمانیول میکرون کو نہیں چاہئے تھا کہ اس کی تائید کرتے۔ انہوں نے تائید کرنے کے لئے بہانا یہ بنایا کہ کارٹوں بنانا حق آزادی رائے کی بنیاد پر ہے اس نے فریڈم آف اسپیچ کا بھی حوالہ دیا اور ہیومن رائیٹس
(Humanrights)
کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ
Islam is in Crisis all over the world
جو سراسر غلط ہے۔ فریڈم آف اسپیچ کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کسی مذہب کے سربراہ کے خلاف اظہار رائے اس طریقے سے کریں کہ اس مذہب کے ماننے والوں کی دل شکنی ہو اور وہ نفرت کا باعث بن جائے ہوا بھی یوں ہی صدر فرانس کی ہمت افزائی کی بنا پر ایک اسکولی ٹیچر نے فائدہ اٹھاتے ہوئے کارٹون کو کاپی کرواکر طلبہ میں تقسیم کرتے ہوئے رائے طلب کی جس پر ایک طالب علم نے ٹیچر کا سر قلم کردیا۔ یقینا اس لڑکے کا اقدام حب رسول ؐ تھا۔ دہشت گردوں کا اقدام نہیں۔ صدر فرانس کا اپنی رائے قائم کرنا آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف ٹھہرا۔ اور وہ بھی اس سربراہ کے بارے میں جنؐ کے تعلق سے یہ کہا گیا کہ
بعدازخدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر
کیا ذات محمدی ؐ (نعوذ باللہ ) اتنی کم عصر ہے کہ ایک ادنیٰ کارٹونسٹ یہ ہمت کرے کہ سرکار پر کیچڑ اچھالے۔ اظہار رائے کی آزادی دنیا کے مختلف ممالک میں دی گئی ہے لیکن یہ آزادی پر چند شرائط عائد کی گئی ہیں۔ جس میں یہ بھی پابندی ہے کہ آپ کسی مذہب کو اپنے خیالات کا نشانہ نہیں بناسکتے اور نہ ہی کسی سربراہ کی کردار کشی کرسکتے ہیں۔ ہر نفس کو اپنی شخصیت پیاری ہوتی ہے وہ اپنی شخصیت پر آنچ آنے کا موقع نہیں دے سکتا۔ اس طرح مسٹر میکرون کی تقریر اس بدبخت کارٹونسٹ کی ہمت افزائی کرنا ایک قابل مذمت اقدام ہے جس کی بجا طور پر ساری دنیا میں مذمت کی گئی۔ ہندوستان میں بھی بعض دانشمندوں کی جانب سے اسلام کی اصل روح کو پہچانے بغیر بیانات دے رہے ہیں۔ جو ایک قابل مذمت اقدام ہے اور کہیں اظہار آزادی رائے کی تعریف کی جارہی ہے اور تشدد کی مذمت کی جارہی ہے۔ جبکہ مسلمان تشدد کا مجرم نہیں ہے۔ اظہار آزادی تحریر اور تقریر کا حق لا محدود نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو تنقیدی حق ہے لیکن صحت مند تنقید ہونی چاہئے جس سے اصلاح مقصود ہو، کسی کی دل آزاری، کردار کشی، مذاق، ٹھیٹی ٹھاٹا نہ ہو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حق لامحدود نہیں ہے۔ اس تعلق سے کئی مقدمات میں فیصلہ دیتے ہوئے ہندوستانی اور امریکی عدالتوں نے پابندیاں عائد کی ہیں۔ اسی لئے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ حق آزادی کی تحریر اور تقریر کی آڑ میں آپ کچھ بھی عناپ شناپ بک سکتے ہیں۔ ردعمل جو مسلمانان عالم نے ظاہر کیا ہے وہ واجبی ہے۔ آقا کائنات ہم کو اولاد اور ماں باپ سے زیادہ عزیز ہیں آپ کی شان رسالت میں ذرہ برابر بھی گستاخی مسلمان برداشت نہیں کرسکتے۔ وہ ؐ جو انگلی سے اشارہ کرتے تو احد کا پہاڑ سونے کا بن جائے۔ وہ ؐ جن کے اشارہ سے چاند دو ٹکڑے ہو جائے وہ ؐ جن کے سامنے کنکریاں کلمہ پڑے۔ وہ ؐ جن کے آگے جھاڑ کا تنا جدائی کے غم میں روپڑے ان کی شان میں گستاخی ہم مسلمان کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتے جبکہ مسلمان کسی مذہب کے اوپر یا اس کے سربراہ پر کبھی کوئی حملہ نہیں کیا۔ مسلمانوں کی مذمت کرنا بعض نام نہاد ترقی یافتہ لوگ فیشن بناچکے ہیں کہ بولنے سے پہلے یقین کرلیتے ہیں کہ مسلمان ٹریرسٹ بنیں جبکہ ہادی عظم نے اپنے امت کو ہمیشہ صبر کی تلقین کی ہے اور آپ ؐ نے اپنے دست مبارک سے اس یہودی کی غلاظت صاف کی تھی جس نے مسجد نبویؐ میں رات بھر با اجازت قیام کیا اور جاتے وقت ایسی حرکت آپ کو تکلیف پہنچانے کے لئے کیا جو ناقابل معافی تھی۔ اس کے باوجود آپ ؐ نے اپنے دست مبارک سے صفائی کی اور اس کو معاف کیا۔ ایسے کئی واقعات ہم کو ملیں گے جس سے آپ ؐ کی شخصیت سورج کی طرح روشن ہو جاتی ہے جس کو کوئی گل نہیں کرسکتا۔ ایسے موقعوں پر ہم کو ایسے جلسے اور سمینار منعقد کرنے چاہئے جہاں آپ ؐ کی سیرت بیان ہو تاکہ تمام عالم آپ کی شخصیت سے واقف ہو جائے اور کوئی فرد ایسی گستاخی دوبارہ نہ کرنے پائے۔ اظہار ناراضگی ظاہر کرنا اور مسلمانوں کی یکجہتی کو سامنے لانا وقت کا تقاضہ ہے۔ یہ بہت ہی اچھا ہوا کہ صدر فرانس نے معافی مانگ لی لیکن ساتھ ہی اردغان مسلمانوں سے فرانس کے مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی۔ کیا یہی بہتر ہوتا اگر صدر فرانس سیرت النبی ؐ کا مطالعہ کرتے اور مسلمانوں سے معافی مانگتے۔