فرزند قریش حضرت امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ

   

(۱۵۰ تا ۲۰۴ ہجری )

امام شافعیؒ کا خاندانی نام محمد اور والد کا نام ادریس بن عباس تھا ۔ شافع ، آپ کے پردادا تھے اس لئے شافعی کہلاتے ہیں۔ شافع ، وہ شخص ہیں کہ جنگ بدر کے موقع پر قبیلہ بنوشہام کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا ۔ جب کفاران قریش کو شکستِ فاش ہوئی تو شافع قیدی بنالیے گئے بعد میں فدیہ دے کر خود کو آزاد کرالیا اور پھر مسلمان ہوگئے ۔ خود حضرت امام شافعیؒ کا قول ہے ’’میری پیدائش ، غزہ میں ہوئی ‘‘۔ غزہ شام کا علاقہ ہے ۔
آپ کی والدہ فاطمہ بنت عبداﷲ ایک مثالی خاتون تھیں ۔ ان کے عزم و ہمت کولفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں ۔ ناداری کی حالت میں کئی سال بسر کرنا پھر بھی شوہر کی جاں نثار رہنا، یہ اس عظیم شریک حیات کی زندگی کا ایک ورق ہے جس کی آغوشِ محبت میں امام شافعیؒ پرورش پارہے تھے ۔ عین عالمِ شباب میں بیوگی کا لباس پہن کر ثابت قدم رہنا اور اولاد کی خاطر ذاتی مسرتوں کو قربان کردینا اس کی کتاب زیست کا دوسرا زرین ورق ہے۔ فاقہ کشی اور بے چارگی کا تسلسل ، انسان سے اس کے ہوش و حواس چھین لیتا ہے ۔ مگر فاطمہ بنت عبداﷲ ، مصائب کی یلغار میں بھی اپنے فرزند کی طرف سے غافل نہیں ہوئیں۔ جب امام شافعیؒ تین سال کے ہوئے تو ایک غیور ماں نے بیٹے کو پہلا سبق دیا ۔ ’’خدا ایک ہے اور وہ سب کا کارساز ہے ۔ کوئی شے اس کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں ، دنیا کا ہر شاہ و گدا ، خدا کا محتاج ہے ۔ انسان کیلئے اس سے بڑی کوئی ذلت نہیں کہ وہ خدا کو چھوڑکر اپنے ہم جنس کے آگے ہاتھ پھیلائے‘‘۔
پھر فاطمہ بنت عبداﷲ نے یہ سبق اتنی بار دہرایا کہ امامؒ نے اپنی آنکھوں سے غیرت کو مجسم ہوتے دیکھا ۔ روز و شب یہی ایک لفظ آپ کے تعاقب میں رہتا ۔ جہاں بھی جاتے اسی ایک لفظ کی بازگشت سنائی دیتی ۔ ’’غیرت‘‘ کی تکرار صرف اس لئے تھی کہ امامؒ کے معصوم ذہن کو احساس کمتری کا آزار متاثر نہ کرسکے۔
خان آصف مرسلہ : عبید بن عثمان العمودی

جب فرزند قریش نے اپنی زندگی کے چار سال مکمل کرلئے تو مادرِ گرامی نے دوسرا سبق دیا۔ ’’محمد ! علم حاصل کرو ۔ علم کے بغیر انسان اور حیوان میں زیادہ فرق باقی نہیں رہتا‘‘۔
ایک عرصے کے بعد والدہ محترمہ نے حضرت امام شافعیؒ سے فرمایا ’’فرزند ! انسانی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ۔ آندھیوں کے رُخ پر رکھا ہوا چراغ کسی بھی وقت بجھ سکتا ہے ۔ یہ زبان اپنے خدا کا شکر ادا کرنے سے عاجز ہے کہ اس نے تمہیں میری زندگی میں حفظِ قرآن کی لازوال نعمت سے سرفراز کیا۔ اب تم اپنا آخری سبق غور سے سنو ۔ ایک ایک لفظ ذہن نشین کرلو کہ اس کے بغیر دنیا اور آخرت میں نجات ممکن نہیں۔ اے ادریس کے بیٹے ! تمہیں محمد مصطفی ﷺ سے دوہری نسبت ہے ۔ تمہاری نسبی رشتہ اسی محترم خاندان سے ہے جس کا تعلق رسالت مآب ﷺسے ہے ۔ دوسرا رشتہ اس رشتے سے بھی معتبر ہے کہ تم خدا کے آخری پیغمبرؐ کی اُمت میں شامل ہو۔ غلاموں پر فرض ہے کہ وہ آقا کی سنت کو زندہ کریں‘‘۔ والدہ کی نصیحت اس قدر اثر انگیز تھی کہ امامؒ کے دل میں عشق کی لے پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی ۔ پھر امامؒ کے دل و دماغ کا یہ حال ہوگیا کہ ہمہ وقت حدیث رسولؐ کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگے ۔ ابھی آپ کی عمر صرف تیرہ سال تھی کہ حضرت مسلم بن خالد زنجی نے فرمایا ۔ ’’محمد ! اب تم فتویٰ دے سکتے ہو ۔ یہ ذمہ داری تمہیں زیب دیتی ہے ‘‘۔
امام ؒ اس کم سنی میں مسند فقہ پر جلوہ افروز ہوئے کہ لوگو ںکو یقین نہیں آتا تھا ۔ پھر آپ نے بعض پیچیدہ مسائل میں اس قدر ذہانت سے فتوے دیئے کہ اہل علم سوچتے رہی رہ گئے ۔ یہ عمر ! یہ حافظہ ! یہ ادراک! یہ رسائی ! یہ ذوقِ شعر! فصاحت و بلاغت ! بلاشبہ امامؒ ان صفات میں اپنی مثال آپ تھے ۔قریش کے مفلوک الحال فرزند نے ہوش و خرد کی بلند ترین چوٹی کو سر کرلیا تھا ۔ مگر ابھی اس کا دل مطمئن نہیں تھا ۔
امام مالکؒ کے فضل و کمال کے تذکرے اسے اکثر بے قرار رکھتے تھے ۔ نصف شب کے سناٹے میں شہر رسول ﷺ سے آنے والی ہوائیں اس سے سرگوشیاں کرتی تھیں : ’’عنقریب لوگ علم کی طلب میں سفر کرکے اونٹوں کے جگر پگھلادیں گے مگر پھر بھی انھیں عالم مدینہ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں ملے گا‘‘۔ (امام شافعیؒ )
پھر وہی بچہ تیرہ سال کی عمر میں ، محرابِ حرم کے نیچے کھڑا ہوا لوگوں سے کہہ رہا تھا ۔ ’’اے شام والو ! اے عراق والو ! جو کچھ مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو ، پوچھ لو ‘‘۔ بڑی سحرانگیز آواز تھی ۔ اہلِ علم کے چلتے ہوئے قافلے رک گئے۔ دیکھنے والوں نے اس بچے کی طرف بہت غور سے دیکھا ۔ کیا عمر تھی اور کیا دعویٰ تھا ؟ لوگوں کو کم سنی کے اس دعوے پر یقین نہیں آیا ۔
…باقی آئندہ
جن کے بازو علم کے سمندر میں شناوری کرتے کرتے شل ہوگئے تھے اور جن کے پاؤں تحقیق کے کوچے میں چلتے چلتے آبلوں سے بھر گئے تھے ، وہ اہل کمال یہ آواز سن کر ٹھہرگئے ۔ پھر اس بچے پر سوالات کی بارش کردی گئی مگر وہ بڑے اعتماد سے جواب دیتا رہا۔ عقل سربہ گریباں تھی اور بڑے بڑے جہاندیدہ ، آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے ۔ ’’کیا یہ بھی ممکن ہے؟ ‘‘ جو صاف باطن تھے وہ بچے کو درازیٔ عمر کی دعائیں دے کر چلے گئے تھے ۔ مگر جن کے سینوں میں حسد کا غبار تھا ان کے دل پہلے سے زیادہ کثیف ہوگئے تھے ۔ وسوسوں نے ان کے دماغوں کو گھیرلیا تھا اور اندیشے مسلسل پریشان کررہے تھے ۔ ان کی نام نہاد ’’امامتوں‘‘ کا مستقبل اس ذہین بچے کے علمی کمالات کی زد میں تھا ، اس لیے وہ اس کے نسب نامے پر اعتراض کرنے لگے ۔ جب وہ لفظوں کی کرشمہ سازیوں اور بات کی گہرائیوں کا جواب نہ دے سکے تو پھر اسے غلام زادہ کہہ کر پکارنے لگے ۔ یہ جذبات کی تسکین کا کیسا اندازہ تھا کہ لوگ تہمتیں تراشتے ہوئے خدا سے نہیں ڈرتے تھے ۔ علم کے میدان میں شکست کھائی تو نسلی غرور کا سہارا لیا ۔ مگر وہ بچہ ان تمام باتوں سے بے نیاز تھا ۔ لوگوں کی تنقید بیجا نے اسے مزید استقامت بخشی ۔ یہ تو ہجوم کو دیکھ کر ڈرجانے کی عمر ہوتی ہے ۔ اس عمر میں تو بچوں کی زبان سے الفاظ بھی ادا نہیں ہوتے لیکن اس کے اعتماد میں کچھ اور اضافہ ہوگیا تھا۔ آواز پہلے سے زیادہ دل نشین اور بلند ہوگئی تھی ۔ وہ اسی مسحور کن لہجے میں بول رہا تھا ’’اے شام والو ! اے عراق والو ! جو کچھ مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو ، پوچھ لو ‘‘۔
پھر ایک دن اس بچے کی تقریر سننے کے لئے فقیہوں اور محدثوں کے قلندر حضرت سفیان ثوریؒ بھی تشریف لائے ۔ اس مردِ آزاد کو آتا دیکھ کر ہجوم میں ہلچل سی مچ گئی ۔ لوگوں نے امامؒ کے لئے راستہ بنادیا ۔ حضرت سفیان ثوریؒ آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ آپ اس جگہ پہنچ کر ٹھہرگئے جہاں قریش کا وہ عظیم بچہ علم کے منبر پر کھڑا ہوا تقریر کررہا تھا ۔ حاضرین نے اپنی نشستیں چھوڑدیں کہ امامؒ بیٹھ جائیں مگر حضرت سفیانؒ علم کے احترام میں کھڑے رہے ۔ فرزند قریش کی زبان سے فصاحت و بلاغت کا آبشار جاری تھا ۔ لہجے کے گداز سے لوگوں کے دل پگھلے جاتے تھے ۔ آخر امام سفیان ثوریؒ نے بے قرار ہوکر فرمایا ’’خدا کی قسم ! اگر انسانی عقل کا وزن کیا جائے تو نصف دنیا کی عقل پر اس بچے کی عقل بھاری ہوگی‘‘۔ مردِ قلندر نے فرزند قریش کی فضیلت پر اس طرح گواہی دی کہ لوگوں کی گردنیں خم ہوگئیں۔
یہ نابغۂ روزگار بچہ حضرت امام شافعیؒ کے سوا اور کون ہوسکتا ہے ؟
امام شافعیؒ غائبانہ طورپر تو بہت پہلے ہی امام مالکؒ سے متاثر ہوچکے تھے۔ مگر جب ’’موطا‘‘ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا تو پھر مکمل طورپر امامِ مدینہ کی شخصیت کے دائرے میں محصور ہوگئے ۔ اب ایک ہی جذبہ سینۂ سوزاں میں باقی رہ گیا تھا کہ کس طرح مالک بن انسؓ کے حضور پہنچ کر دماغ و روح کی تشنگی کو سیراب کریں۔
امام شافعیؒ نے اپنے استاد حضرت سفیان عینیہؒ سے امام مالکؒ کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا ’’مالک بن انسؓ کے سامنے ہماری حیثیت ہی کیا ہے ؟ ہم تو ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے ہیں‘‘۔ پھر امام شافعیؒ نے اپنی تمام تر مجبوریوں کے باوجود دربار امام مالکؒ میں حاضر ہونے کافیصلہ کرلیا ۔
زندگی نئے انقلاب سے دوچار ہونے والی تھی کہ امام شافعیؒ نے ایک غیبی آواز سنی ۔ کوئی آپ سے کہہ رہا تھا ’’محمد! دنیا کا اصول ہے کہ جب کوئی شخص کسی شہنشاہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو رسمِ زمانہ کے مطابق نذر پیش کرتا ہے ۔ مالکؒ بھی اقلیم حدیث و فقہ کے تاجدار ہیں۔ تم ان کے حضور کیا نذر پیش کروگے؟ ‘‘ آواز سن کر امام شافعیؒ چونک پڑے ۔ آپ کو اپنی تہی دستی کا احساس ہوا، خالی دامن کی طرف دیکھا پھر اُداس ہوگئے ۔
…باقی آئندہ