بہت یاد آئیں بُھلانے کی باتیں
بھلائی گئیں یاد آنے کی باتیں
ملک میں ان دنوں فرقہ وارایت کو انتہائی درجہ تک ہوا دی جا رہی ہے ۔ عوام کے ذہنوں پر انتہائی منفی اثرات مسلط کرتے ہوئے ان کی سوچ کو پراگندہ کیا جا رہا ہے ۔ ہر معاملے کو فرقہ وارانہ نوعیت دیتے ہوئے ملک کے امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو خراب کیا جا رہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں اور عناصر بے لگام ہوگئے ہیں اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں رہ گیا ہے ۔ وہ من مانی انداز میں ملک کے قانون اور دستور کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور کھلے عام حکام کو چیلنج تک بھی کیا جا رہا ہے ۔ اس کے باوجود ان پر کوئی لگام کسنے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی انہیں روکا جا رہا ہے ۔ ایسے معاملات اٹھائے جا رہے ہیں جن کے ذریعہ امن و امان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور ہو رہا ہے ۔ انسانی جانیں تلف ہو رہی ہیں۔ سنبھل کا واقعہ اس کی مثال ہے جہاں تین بے گناہ اور بے قصور مسلم نوجوان شہید ہوگئے ۔ یہاں پانچ سو سال سے ایک مسجد واقع ہے اور اب پر مندر کا دعوی کرتے ہوئے ماحول کو پراگندہ کیا گیا ہے ۔ اسی طرح درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے تعلق سے بھی عدالت میںدعوی کردیا گیا ہے ۔ یہ دعوے اس حقیقت کے باوجود کئے جا رہے ہیں کہ ملک میں ایک قانون ہے جس کے تحت 15 اگسٹ 1947 کو جس عبادتگاہ کا جو موقف تھا اسے برقرار رکھا جانا چاہئے تاہم اس قانون سے بھی کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور عدالتوں میں بھی اس طرح کے مقدمات کی سماعت ہونے لگی ہے۔ مسلمانوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ انہیں پاکستان چلے جانے کے مشورے تو بہت پہلے سے دئے جا رہے تھے ۔ بیف کے نام پر مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا ہے اور ہجومی تشدد میں الگ بے قصور نوجوانوںکو شہید کیا گیا ہے ۔ چلتی ٹرین سے مسلم نوجوانوں کو پھینک دیا گیا ہے ۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں جو منظر عام پر بھی نہیں آئے ہیں۔ مسلمانوں کی دوکانوں کو بند کروانے کیلئے مہم چلائی جا رہی ہے ۔ انہیں دھمکایا جا رہا ہے اور انہیں کاروبار سے روکا جا ہرا ہے ۔ کچھ علاقوں میں مسلمانوں کا داخلہ بند کرنے جیسے تک واقعات پیش آرہے ہیں اور حکومتیں اور انتظامیہ اس معاملے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے جس کی وجہ سے ایسے فسادی عناصر کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔
سارے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے ان کے خلاف سماج میں ماحول پیدا کیا جا رہا ہے ۔ ان کے تعلق سے منفی پروپگنڈے کئے جا رہے ہیں۔ چاہے ٹی وی چینلوں پر ہوں یا پھر مختلف مذاہب کے اجتماعات ہوں ۔ ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی ہو رہی ہے ۔ سارے ملک کا ماحول پراگبندہ کرتے ہوئے فضاء کو زہر آلود کیا جارہا ہے اور اس میں کچھ حد تک ایسے عناصر کو کامیابی بھی ملتی دکھائی دے رہی ہے جو انتہائی تشویش کی بات ہے ۔ سماج کا ایک بڑا حصہ حالانکہ اس طرح کی منفی اور بیمار ذہنیت کی تائید و حمایت نہیں کرتا لیکن وہ خاموشی ضرور اختیار کر رہا ہے ۔ سماج کے ایک بڑے طبقہ کی خاموشی اس طرح کی بیمار ذہنیت کو ہوا دینے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی وجہ بھی بن رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کی منفی اور بیمار ذہنیت رکھنے والوں کے خلاف مہم شروع کی جائے ۔ سماج کو فرقہ پرستی کے زہریلے اثرات سے واقف کروایا جائے ۔ ہندوستان کا جو ماحول خراب ہو رہا ہے اس تعلق سے شعور بیدار کیا جائے کیونکہ جو بھی منفی کام کیا جائے یا منفی مہم چلائی جائے اس کے منفی اثرات ہی سماج پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ سب سے زیادہے افسوس کی بات یہ ہے کہ انتہائی معمولی سیاسی فائدہ کیلئے یہ سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنی بے حسی کا ثبوت دے رہی ہے ۔ اس سلسلہ کو مزید دراز ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ اس کو روکنے کیلئے سماج کے تمام طبقات کو آگے آنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں یکجہتی اور ہم آہنگی کے ماحول کو دوبارہ بحال کیا جاسکے ۔
ملک کے گنگا جمنی ماحول کو بحال کرنا اور اسے برقرار رکھنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور اس معاملے میں حکومتیں نہ صرف پوری طرح سے ناکام ہوگی ہیں بلکہ ایسا تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ حکومتیں بھی ایسے واقعات کی بالواسطہ تائید و حمایت کر رہی ہیں۔ حکومتوں کو اس معاملے میں جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ملک کی تمام صحیح الفکر سیاسی جماعتوں کو اس معاملے میں سرگرم ہونے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے ماحول کو پراگندہ ہونے سے بچانا ہر شہری کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ جہاں عوام کو حرکت میں آنا چاہئے وہیں تمام سیاسی جماعتوں کو اس معاملے میں سیاسی نفع و نقصان کی پرواہ کئے بغیر آگے آنا چاہئے ۔ سب کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ملک سب کا ہے اور سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک کے مستبل کو محفوظ ‘ روشن اور تابناک بنانے کیلئے فرقہ وارایت کی سوچ کی نفی کرنے کیلئے آگے آئیں۔
مہنگائی پر کنٹرول کیوں نہیں ؟
ہندوستان بھر میں مہنگائی میں لگاتار اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء بھی عوام کی رسائی سے باہر ہونے لگی ہیں اور عوام کا گھریلو بجٹ درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے ۔ مرکزی حکومت ہو یا پھر ملک کی تقریبا تمام ریاستوں کی حکومتیں ہوں اس معاملے میں پوری طرح سے خاموشی اختیار کی ہوئی ہیں اور وہ عوام کے بوجھ کو محسوس کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ حکومت ایسا لگتا ہے کہ صرف کارپوریٹس کے مفادات کی حد تک محدود ہوگئی ہے اور عوام پر عائد ہونے والے بوجھ کی اسے کوئی فکر نہیں رہ گئی ہے ۔ سیاسی قائدین اور حکومت کے ذمہ داران حالانکہ عوام سے کئی وعدے کرتے ہیں اور انہیں ہتھیلی میں جنت دکھاتے ہیں لیکن عوام کے مسائل کو حل کرنے کا جب وقت آتا ہے تو وہ ایسا لگتا ہے کہ انتہائی لاپرواہ ہوجاتے ہیں اور عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ مہنگائی ہندوستان میںاب اتنی ہوگئی ہے کہ عام آدمی کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ حکومت کو اس معاملے میں کم از کم انسانی بنیادوں پر سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور ایک جامع میکانزم تیار کرتے ہوئے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں پر قابو پانے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔