کام کی بات میں نے کی ہی نہیں
یہ میرا طور زندگی ہی نہیں
فرقہ پرستانہ انتخابی سیاست کا عروج
بی جے پی اہم عوامی اور معاشی مسائل پر عوام میں مقام بنانے اور اپنے سابقہ وعدوں میں ناکامی کے بعد اس بار لوک سبھا انتخابات کو محض فرقہ واریت کے ذریعہ جیتنا چاہتی ہے ۔ انتخابات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوئی کوشش باقی نہیں رکھی جا رہی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی ‘ پارٹی صدر امیت شاہ سے لے کر ذیلی قائدین تک ہر ہر موقع پر فرقہ پرستانہ ریمارکس کرتے جا رہے ہیں۔ ہندو ۔ مسلم خلیج کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ ایک مخصوص طبقہ کے وقار کی بات کی جا رہی ہے ۔ دوسرے طبقہ کو نشانہ بناتے ہوئے اس کے تعلق سے نفرت کے ماحول کو مزید ہوا دی جا رہی ہے ۔ پارٹی نے کئی حلقوں سے ایسے امیدواروں کو بھی میدان میںاتارا ہے جو ملک میں بم حملوں کے مقدمات کا سامنا کرنا چکے ہیں۔ انہیں عدالتوں نے استغاثہ کی ناکام پیروی کی وجہ سے بری کیا ہے ۔ عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی گنجائش کے باوجود انہیں راحت پہونچائی گئی ہے اورا پیلیں دائر کرنے سے انکار کردیا گیا ہے ۔ یہ سب کچھ ایک منظم سازش کے تحت ہو رہا ہے ۔ بی جے پی کو اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ اپنے سابقہ انتخابی وعدوں کی تکمیل کے تعلق سے عوام کے سوالات کے کوئی جواب دینے کے موقف میں نہیں ہے ۔ وہ ملک کی معیشت کی حقیقی تصویر عوام کے سامنے پیش کرنے کے قابل نہیں رہ گئی ہے ۔ بی جے پی کالے دھن کی واپسی پر کوئی بات نہیں کرسکتی ‘ نوجوانوں کو کروڑہا روزگار فراہم کرنے کے وعدہ پر وہ سوالات کا سامنا کرنے تیار نہیں ہے ‘ ملک میں خواتین کی سلامتی جیسے مسائل پر وہ کچھ بھی کہنے کے موقف میںنہیں ہے ۔ ایسی صورتحال میں اس نے محض فرقہ وارانہ منافرت اور جنون کو ہوا دینے کا راستہ اختیار کیا ہے اور منفی روش اختیار کرتے ہوئے انتخابات میں مقابلہ کیا جا رہا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں بی جے پی نے بھوپال سے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو اپنا امیدوار بنایا ہے ۔ پرگیہ سنگھ وہی سادھوی ہے جسے مالیگاوں بم دھماکوں کے مقدمہ میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ حالیہ عرصہ میں استغاثہ کی ناکام پیروی کی وجہ سے پرگیہ کو عدالت نے الزامات سے بری کردیا تھا تاہم اس کے خلاف اپیل کی گنجائش تھی لیکن اپیل کرنے سے بھی گریز کیا گیا ۔
مودی ‘ امیت شاہ اور پارٹی کے تقریبا تمام قائدین ہندو ۔ مسلم خلیج کو بڑھاوا دینے جیسے بیانات دینے میں مصروف ہیں۔ مودی کا سب سے پہلے یہ طریقہ اختیار کیا اور کہا کہ کانگریس نے ملک میں ہندو دہشت گردی کی اصطلاح شروع کرکے ایک پرامن برادری کو بدنام کیا ہے ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مودی ملک کے وزیرا عظم نہیں بلکہ ہندووں کے لیڈر کی حیثیت میں بات کر رہے ہیں۔ وہ محض ایک طبقہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور سماج میں خلیج کو بڑھاوا دینے جیسی سطح پر اتر آئے ہیں۔ اس کے بعد برسر اقتدار پارٹی کے صدر نے بیان دیا کہ بی جے پی کو دوبارہ اقتدار مل جاتا ہے تو ہندووں اور بدھسٹوں کو چھوڑ کر دوسرے تمام در اندازوں کو نکال باہر کیا جائیگا اور دوسرے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو کوئی پناہ نہیں دی جائیگی ۔ یہ بھی سماج میں نفرت اور خلیج پیدا کرنے کی منظم سازش کا ہی حصہ تھا ۔ ایک مرکزی وزیر منیکا گاندھی مسلمانوں کو دھمکانے پر اتر آئی ہیں اور انہیں ووٹ دینے کیلئے مجبور کرنے لگی تھیں۔ ایسے ہی بے شمار واقعات پیش آئے ہیں جہاں بی جے پی نے اہم ترین قومی مسائل اور ملک کی ترقی اور معیشت جیسے امور کو انتخابی موضوع بنانے کی بجائے فرقہ واریت کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے سماج میں نراج اور بے چینی کی کیفیت کو ہوا دی جا رہی ہے جو ہندوستان جیسے ملک کی برسر اقتدار پارٹی کو ذیب نہیں دیتا ۔
اب بھوپال سے پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو امیدوار بناتے ہوئے ایک بار پھر سماج میں نفرت کو ہوادینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ بھوپال میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ یہ مقابلہ ہندو دہشت گردی کی اصطلاح شروع کرتے ہوئے ہندووں کو رسوا کرنے والے عناصر کے خلاف ہے ۔ بھوپال لوک سبھا حلقہ پر گذشتہ کئی معیادوں سے بی جے پی کا قبضہ ہے ۔ وہ یہاں اپنے اقتدار میں کئے گئے اقدامات اور ترقیاتی کاموں کے نام پر ووٹ مانگنے کے موقف میں نہیں رہ گئی ہے ۔ مدھیہ پردیش کے عوام نے بی جے پی کی حکومت کو یہاں سے اکھاڑ پھینکا ہے ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام بی جے پی کے کام کاج سے خوش نہیں ہیں ۔ اسی لئے بی جے پی کو اب انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے فرقہ واریت کا راستہ ہی دکھائی دے رہا ہے تاہم ملک کے عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی منفی سوچ رکھنے والوں کو منہ توڑ جواب دیں اور ناکام بنائیں۔