فرقہ پرستوں کو سبق سکھانے کا موقع

   

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
فرقہ پرستوں کو سبق سکھانے کا موقع
آج ملک کی مختلف ریاستوں میں لوک سبھا انتخابات کا پہلا مرحلہ ہے ۔ ملک کی مختلف ریاستوں کی علیحدہ نشستوں پر آج ووٹ ڈالے جانے ہیں۔ ایک طرح سے ملک کی سیاسی قسمت کے فیصلے کا عمل آج عوام کے ووٹوں کے ذریعہ شروع ہو رہا ہے ۔ عوام نے ان ریاستوں اور لوک سبھا حلقوں میں انتخابی مہم کو دیکھا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی تقاریر کو ملاحظہ کیا ہے ۔ ان کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ۔ ان کے انتخابی منشور بھی دیکھے ہیں۔ ان کی سیاسی ریلیوں میں خطابات اور تقاریر کی بھی سماعت کی ہے ۔ سیاسی قائدین نے اپنی تقاریر کے ذریعہ اپنے مستقبل کے منصوبوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ رائے دہندوں کے سامنے اب ملک کے مستقبل کو طئے کرنے کا مرحلہ ہے ۔ عوام کو یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کا ایک ایک ووٹ ملک کے مستقبل کو سنوارنے یا بگاڑنے کا باعث ہوسکتا ہے ۔ ان کا ایک ووٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے اور ان سے صحیح یا غلط جماعت یا امیدوار کا انتخاب یقینی ہوسکتا ہے ۔ اس غلط فہمی کا شکار کسی کو نہیں ہونا چاہئے کہ ان کے ایک ووٹ سے کیا فرق پڑیگا ۔ کئی موقعوں پر ایک ووٹ ملک کی قسمت کا فیصلہ کرسکتا ہے ۔ ہمیں یہ مثال ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ سیف الدین سوز رکن پارلیمنٹ کے ایک ووٹ سے پارلیمنٹ میںاٹل بہاری واجپائی کی حکومت زوال کا شکار ہوگئی تھی ۔ آج رائے دہندے الجھن کا شکار بھی ہوسکتے ہیں لیکن انہیں کسی الجھن کا شکار ہوئے بغیر یا جذباتیت میں آئے بغیر ‘ اشتعال انگیز تقاریر کا نعروں کے جھانسے میں پھنسے بغیر ملک کے مستقبل کو طئے کرنے کی سمت پیشرف کرنے کی ضرورت ہے ۔ رائے دہندوںکو ووٹ دینے سے پہلے یہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کہ ملک کو کس سمت میں منتقل کرنا ہے ۔ کس سمت میں سفر آگے کی سمت ممکن ہوسکتا ہے ۔ ملک کیلئے کونسی جماعت زیادہ بہتر ہوسکتی ہے ۔ ان کے اپنے لئے کونسا امیدوار زیادہ کارآمد اور سود مند ہوسکتا ہے ۔ وہ رائے دہندوں کے حق میں کیا کچھ خدمات انجام دے سکتا ہے ۔ کیا کوئی امیدوار ایسا تو نہیں ہے جو ان کے ووٹ لے کر انہیں فراموش کر بیٹھے ؟ ۔
ووٹ ڈالتے ہوئے خاص طور پر ملک کی اقلیتوں کو اپنے سیاسی شعور اور بصیرت کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے ۔ ہمیںیہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم غیروں میں چھپے اپنے اور اپنوں میں چھپے غیروں کو سمجھنا ہوگا ۔ جب تک ہم سیاسی فہم اور بصیرت کے ساتھ ووٹ نہیںڈالیںگے اس وقت تک ملک میں ہماری سیاسی اہمیت کو کوئی تسلیم نہیں کر پائیگا ۔ ہمیں اپنی سیاسی اہمیت کو تسلیم کروانا ہے تو پوری بصیرت کے ساتھ کسی طرح کے جذبات یا اشتعال کا شکار ہوئے بغیر اور بہکاوے میں آئے بغیر ہمیں اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس وقت ہم نے کسی بہکاوے کو قبول کیا ہمیںیہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہمیں کئی اخلاق دیکھنے پڑیں گے ۔ کئی جنید ہماری نظروں کے سامنے مار دئے جائیں گے ۔ کئی پہلو خان کے جنازے ہمیں اٹھانے پڑیں گے ۔ آسام میں کل ہی پیش آیا واقعہ ہمارے سامنے ہے جہاں شوکت علی نامی فرد کو اشرار نے بد جانور کا گوشت کھانے پر مجبور کردیا اور اسے زد و کوب بھی کیا گیا ۔ ان واقعات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ہمیں یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم مرکز میں کس کو اقتدار سنبھالنے میں مدد کرتے ہیں اور کون سی طاقتیں ہیں جنہیں ہمیں مرکز میں اقتدار حاصل کرنے سے روکنا ہے ۔ یہ بات زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ اگر ہم ان باتوں کو فراموش کردینگے تو ہمیں مستقبل میں بے طرح مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔
آج فیصلے کا دن ہے اور ہمیں اپنی سیاسی بصیرت کے ساتھ دیگر ابنائے وطن کے ساتھ ملک کی تعمیر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا فیصلہ کرنا چاہئے ۔ ہمیں یہ بات اپنے ووٹ کے ساتھ طئے کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم ملک کو کس سمت میں لے جائیں گے ۔ ہمیں اپنی قوم کو ترقی کی راہ پر لانا ہے تو ہم کس طرح سے اس کا راستہ طئے کرسکتے ہیں۔ ہمیں اپنے ایک ایک ووٹ کے ذریعہ اخلاق کے قاتلوں کو جواب دینا ہے ۔ ہمیں اپنے ووٹ کے ذریعہ پہلو خان کو یاد رکھنا ہے ۔ ہمیں اپنے ایک ووٹ کے ذریعہ حافظ جنید کی یاد تازہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیںاپنے ملک کے مستقبل اور قوم کی تعمیر اور ترقی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ملک کو آگے بڑھانے والی جماعتوںاور امیدواروں کو ووٹ دینا چاہئے ۔