کرتوت تمہارے ایسے ہیں قدرت بھی شرما جائے گی
تم مالک ہو خود غرضی کے ایثار کی قیمت کیا جانو
ملک میں جب کبھی انتخابات کا ماحول آتا ہے فرقہ پرستی کے ماحول کو ہوا دینے میں تیزی اور شدت پیدا ہوجاتی ہے ۔ فی الحال جموںو کشمیر اور ہریانہ اسمبلی انتخابات کیلئے انتخابی اور سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ جموں و کشمیر میں علاقائی جماعتوں پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کے علاوہ کانگریس اور بی جے پی انتخابی میدان میں ہیں جبکہ ہریانہ میں راست مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہے ۔ علاقائی جماعت جن نائک جنتا پارٹی اور عام آدمی پارٹی بھی انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کر رہی ہیں جن کے نتیجہ میں قومی جماعتوں کے انتخابی امکانات متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا کے انتخابی نتائج قومی سطح پر اثرا نداز ہوسکتے ہیں اسی لئے بی جے پی کی جانب سے انتخابی تیاریوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ بعض گوشوں کا تاثر یہی ہے کہ ان ہی انتخابات اور ان کے نتائج کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ملک بھر میں فرقہ پرستی کے ماحول کو ایک بار پھر شدت کے ساتھ ہوا دی جا رہی ہے ۔ اسے فروغ دیا جا رہا ہے ۔ عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جا رہا ہے ۔ سماج میں خلیج کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے ۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یک جہتی کو متاثر کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ فرقہ وارانہ منافرت کو پھیلاتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہمیشہ سے بی جے پی کی حکمت عملی اور پالیسی رہی ہے ۔ ہر موقع پر جب کبھی کسی ریاست یا قومی سطح پر انتخابات ہوتے ہیں اس طرح کے مسائل کو ہوا دیتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے سے بی جے پی کبھی گریز نہیں کیا ہے ۔ بی جے پی قائدین اشتعال انگیز بیانات دیتے ہوئے نوجوانوں کے ذہنوں کو زہر آلود کرنے سے بھیگ ریز نہیںکرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ تقریبا ایک ماہ کے عرصہ میں ملک بھر میں فرقہ وارانہ نوعیت کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ کہیں کسی کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا جا رہا ہے تو کہیں کسی مسجد یا دوسری عبادتگاہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ کہیں کوئی فرقہ وارانہ تقریر کی جا رہی ہے تو کہیں مسلمانوں کے سماجی مقاطعہ یا بائیکاٹ کے منصوبوں کو عملی شکل دینے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ان سارے واقعات کے نتیجہ میں ایک بار پھر ملک میں فضاء متاثر ہو رہی ہے اور نفرتیں بڑھنے لگی ہیں۔
مہاراشٹرا کے مختلف شہروں میںا س طرح واقعات عام ہونے لگے ہیں۔ کبھی اکولہ تو کبھی شولاپور ‘ کبھی پونے تو کبھی کسی اور شہر کی فضاء کو مکدر کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ یہی حال ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی کیا جا رہا ہے ۔ ایک منظم اور جامع منصوبہ اور حکمت عملی کے تحت ایسا کیا جا رہا ہے لیکن حکومتوں کا جہاں تک سوال ہے تو اس صورتحال پر خاموشی تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ کسی طرح کی ضروری اور جامع کارروائی نہیں کی جا رہی ہے ۔ حکومت اپنی خاموشی کے ذریعہ ایسی صورتحال کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ فرقہ پرست عناصر اور ان کے آلہ کاروں کے حوصلے بلند ہونے لگے ہیں۔ ان کو قانون کا کوئی خوف لاحق نہیں رہ گیا ہے ۔ وہ من مانی کرنے لگے ہیں۔ خود کو ماورائے قانون اتھاریٹی سمجھنے لگے ہیں۔ کبھی کسی کو ٹرین میں پیٹا جا رہا ہے تو کبھی کسی کو راستے میں روک کر زد و کوب کرنا معمول کی بات ہوگئی ہے ۔ ایسے عناصر کے خلاف نفاذ قانون کی ایجنسیاں اور پولیس ضروری کارروائی کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ بے شمار واقعات کے باوجود تحقیقاتی ایجنسیاں کسی ایک بھی معاملے میں ملزمین کو سزا اور متاثرین کو انصاف دلانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہیںجس کے نتیجہ میں ان کی اپنی افادیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے علاوہ ان کی جانبداری پر بھی سوال پیدا ہونے لگے ہیں۔ ایجنسیاں اس حقیقت کو قبول کرنے تیار نہیں ہیں اور اپوزیشن کا یہ الزام تقویت پاتا ہے کہ یہ ایجنسیاں غیر جانبدار نہیں ہیں بلکہ وہ سیاسی اشاروں پر سیاسی تقاضوں کی تکمیل کیلئے کام کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ انہیں اپنی شناخت پر پیدا ہونے والے سوالات کی فکر لاحق نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ پیشہ ورانہ مہارت کو استعمال کرنے کی بجائے سیاسی اشاروں کو قبول کرنے میں زیادہ دلچسپی دکھا رہی ہیں۔
ہندوستان دنیا بھر میں اپنا مقام بنانے لگا ہے ۔ اس کی اہمیت اور اس کی رائے کو تسلیم کا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ کو فروغ دیا جائے ۔ اس کی بجائے نفرتوں کو ہوا دیتے ہوئے ملک کی بدخدمتی کی جا رہی ہے ۔ اس معاملے میں حکومت کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ اسے چاہئے کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے والوں اور نفرتوں کو ہوا دینے والوں کے خلاف کارروائی کرے ۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کو بھی کسی جانبداری کا مظاہرہ کئے بغیر اپنی مہارت کا استعمال کرنے اور نقص امن کا خطرہ بننے والے عناصر پر لگام کسنے کی ضرورت ہے ۔ ملک میں پرامن اور خوشگوار ماحول بنائے رکھنا سب کیلئے ضروری ہے ۔
دہلی میں آتشی کی حلف برداری
دارالحکومت دہلی میں عام آدمی پارٹی کی لیڈر آتشی نے چیف منسٹر کی حیثیت سے آج شام حلف لے لیا ہے ۔ چند دن قبل پارٹی سربراہ و سابق چیف منسٹر اروند کجریوال کو دہلی شراب اسکام میں سپریم کورٹ سے ضمانت حاصل ہوئی تھی اور بعد میں انہوں نے چیف منسٹر کے عہدہ سے استعفی پیش کرنے کا اعلان کردیا تھا ۔ آتشی کو ان کی جانشین کے طور پر منتخب کیا گیا تھا اور آج انہوں نے چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف بھی لے لیا ہے ۔ آتشی کے یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ دیکھنا بہت اہمیت کا حامل ہوگا کہ وہ دہلی میں حکومت کے کام کاج کو دوبارہ کس حد تک رواں کر پاتی ہیں۔ کجریوال کی گرفتاری اور جیل میں قید رہنے کی وجہ سے کئی سرکاری کام رک گئے تھے ۔ ریاستی حکومت کے لیفٹننٹ گورنر کے ساتھ شدید اختلافات ہیں۔ ایل جی پر سرکاری کام کاج میںر کاوٹ پیدا کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے ۔ کجریوال پر سکریٹریٹ اور چیف منسٹر کے دفتر جانے پر عائد پابندی کی وجہ سے انہوں نے استعفی پیش کردیا تھا ۔ اب آتشی کو یہ عہدہ دیا گیا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ سرکاری کام کاج کو کس طرح سے بحال کر پاتی ہیں۔ لیٹننٹ گورنر کے ساتھ ان کے تعلقات کیسے بن پائیں گے ۔ حکومت اور ایل جی کے مابین رسہ کشی پر کس حد تک قابو کیا جا سکے گا ۔ سرکاری فائیلوں کی نقل و حرکت میں کتنی بہتری آئے گی ۔ حکومت کے کام کاج کو کس حد تک کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھنے کا موقع مل پائیگا ۔ آتشی پر دہلی کے ٹھپ ہوتے ہوئے نظم و نسق کو دوبارہ فعال اور سرگرم بنانے کی ذمہ داری عائد ہوئی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی مجبوریوں کے باوجود وہ کس حد تک اس ذمہ داری کی تکمیل کر پاتی ہیں۔ گورنر کا انہیں تعاون ملے گا یا نہیں یہ آئندہ وقت ہی بتائے گا ۔