فرق ہے پیدائشی مسلمان اور نو مسلم میں

   

محمد مصطفی علی سروری
تلنگانہ کے ایک ضلع کا واقعہ ہے۔ ہوا یوں کہ ایک مسلمان لڑکی نے اپنے گھر سے بھاگ کر ایک ہندو نوجوان کے ساتھ مندر جاکر وہاں پر شادی رچالی۔ اس واقعہ پر مسلم نوجوانوں میں خوب غم و غصہ کی لہر پھیل گئی ایک دوسرے کو غیرت دلانے کے لیے ہر کوئی سوشیل میڈیا اور واٹس ایپ کے ذریعہ مسیجس فارورڈ کر رہا تھا۔ بتلایا گیا کہ لڑکی کے ’’غیرت مند‘‘ رشتہ داروں نے لڑکے سے، اس کے گھر والوں سے بدلہ لینے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بنانے شروع کردیئے اور پولیس میں بھی باضابطہ شکایت درج کروائی گئی۔ پولیس نے لڑکے اور لڑکی کو باضابطہ طور پر اپنے ہاں طلب کیا۔ لیکن لڑکی نے پولیس کے روبرو اپنا بیان ریکارڈ کروایا کہ اس نے اپنی مرضی سے ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کی ہے۔ اب وہ اپنے مسلمان ماں باپ اور ان کے گھر کو واپس جانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔ لڑکی چونکہ بالغ تھی۔ اس لیے پولیس کو لڑکی کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد لڑکی کے گھر والوں کی شکایت خارج کرنی پڑی اور ادھر غیرت مند مسلمان پولیس پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے اپنے غصہ کا اظہار کر رہے تھے۔
دوسرے جانب جب یہ اطلاع اسی ضلع کے احمد بھائی (نام تبدیل) کو ملی تو انہوں نے خاموشی سے اس نوبیاہتا جوڑے کا پتہ اٹھایا اور پھر ان لوگوں کی کونسلنگ کرنے کے ارادے ان سے ملنے کے لیے نکل پڑے۔ لڑکی والوں کی طرف سے جس طرح سے اور جس انداز میں لڑکے کو اس کے گھر والوں کو دھمکیاں دی گئی تھیں اور ڈرایا گیا تھا اس پس منظر میں ہندو لڑکا اپنی بیوی کو لے کر ایک نامعلوم مقام پر رہ رہا تھا۔ ایسے میں احمد بھائی کو اس لڑکے سے ملنے اور کونسلنگ کے کام میں بڑی رکاوٹ رہی۔ خیر سے کسی طرح احمد بھائی نے لڑکے کو یقین دلایا کہ وہ اس سے ملنا چاہتے ہیں اور ان کی ملاقات کے لیے لڑکی یا اس کے گھر والوں کا کوئی رول نہیں ہے بلکہ وہ تو شادی شدہ جوڑوں کو خوش حال زندگی گذارنے کے لیے کونسلنگ کرتے ہیں۔
خیر سے احمد بھائی کی اس ہندو لڑکے اور مسلم لڑکی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے دونوں کی خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے تفصیلی بات کی اور سمجھایا کہ دونوں کا الگ الگ مذہب سے تعلق ہونا اور لڑکی کا اپنے گھر سے بھاگ کرشادی کرنے مندر آنا کامیابی نہیں ہے بلکہ اصل کامیابی یہ بھی نہیں کہ پولیس نے ان دونوں کو بغیر کسی کیس کے چھوڑ دیا۔ احمد بھائی نے لڑکے کو سمجھایا کہ دونوں کی آگے کی شادی شدہ زندگی پرسکون گذرے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکنہ اقدامات کرنے چاہئے اور سب سے اہم بات کہ دونوں (لڑکے اور لڑکی) کے گھر والوں کی نیک خواہشات اگر شامل حال ہوجائیں تو اس سے بہتر دوسری کوئی بات نہیں ہوسکتی ہے۔
احمد بھائی نے لڑکے کو بتلایا کہ چھپتے چھپاتے یا اپنے ہی گھر سے دور رہ کر اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالنا کوئی آسان کام نہیں اور جب میاں بیوی کو ذہنی سکون نہیں تو انہیں اپنا گھر بسانا اور اپنے بچوں کے بارے میں سونچنا بھی ممکن نہیں۔ جب لڑکے نے احمد بھائی سے پوچھا کہ ان سارے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے تو احمد بھائی نے سمجھایا کہ تمہارے گھر والے تو تم سے ناراض ہی ہیں کہ تم نے دوسروں کی لڑکی کو بھگاکر شادی کرلی۔ لڑکی کے گھر والے اس لیے ناراض کے تم نے ان کی بچی کو بھگایا۔ تمہارے پاس مستقل نوکری نہیں اور اگر تم دونوں کو تمہارے گھر والوں کا سپورٹ مل جائے تو اس سے بڑھ کر دوسرا کوئی سہارا نہیں ہے اور اگر تم مذہب اسلام میں داخل ہو جائو تو تم سکون کی زندگی گزار سکتے ہو کیونکہ تم کو اپنے سسرال والوں سے ذہنی سکون تو ملے گا ساتھ ہی آگے کی زندگی کے لیے ہر قدم پر وہ لوگ تم دونوں کی مدد بھی کرسکیں گے۔اس کے بعد احمد بھائی نے کہا کہ تم پر کوئی زبردستی نہیں۔ میں تمہیں اسلام کے بارے میں کتابیں دیتا ہوں۔ تم پڑھ لو اسلام کو سمجھ لو اور اگر اطمینان ہوجائے تو بتادینا تب تم کو اسلام میں داخل ہونے کا طریقہ بھی بتادوں گا۔ احمد بھائی کے مطابق کونسلنگ کے دو تین سیشن ہوئے۔ بچی کو بھی سمجھ میں آگیا اور بالآخر لڑکے نے بھی اپنی خوشگوار ازدواجی زندگی کو یقینی بنانے کے لیے دائرہ اسلام میں داخل ہوکر مسلم لڑکی سے اب نکاح کرلیا اور یوں ایک ہی گائوں کے دو فرقوں کے درمیان جو تنائو اور کشیدگی پیدا ہوگئی تھی وہ بھی بڑی حد تک تھم گئی۔
قارئین کرام اس سارے واقعہ کو سننے کے بعد احمد بھائی کے کردار کو جاننے اور ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے بے چینی بڑھ گئی اور پھر بالآخر ان کا پتہ چل ہی گیا۔احمد بھائی سے جب بات کی گئی تو انہوں نے ان ریکارڈ پر آنے سے بالکل منع کردیا۔بہر حال درمیانی افراد نے انہیں اپنے متعلق بات کرنے کے لیے آمادہ کرلیا۔ لیکن ان کی ایک ہی شرط تھی کہ وہ اپنی اصلی شناخت مخفی ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ البتہ وہ اپنے بارے میں اپنے کام کے بارے میں ضرور بات کریں گے۔
تقریباً 50 سال کی عمر کے احمد بھائی پیدائشی مسلمان نہیں ہیں۔ احمد بھائی نے مذہب اسلام کیوں اور کیسے قبول کیا اس کے متعلق وہ بتلاتے ہیں کہ ان کا تعلق تلنگانہ کے ایک ضلع سے ہے۔ بچپن میں ان کے بہت سارے دوست مسلمان تھے۔ ان کی عمر جب تقریباً 13 برس تھی تو انہوں اسلام کا مطالعہ شروع کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیوں انہوں نے اسلام کے متعلق جاننا ضروری سمجھا؟ تو احمد بھائی نے کہا کہ وہ ایک ہندو گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور جب وہ محلے میں اور اسکول میں اپنے مسلم دوستوں سے ملتے جلتے تو انہیں اندازہ ہوا کہ مسلمانوں کی زندگی گزارنے کا انداز الگ ہے۔ صرف انداز ہی نہیں مسلمانوں کے تہوار الگ ہیں۔ مسلمانوں کے ہاں خلوص ہے، مسلمانوں کی عورتیں بہت پردہ میں رہتی ہیں۔ غرض مسلمانوں کے گھروں کے حالات بھی ان کے گھر جیسے نہیں اور احمد بھائی کو جب وہ ہائی اسکول میں آگئے تو اپنے مسلم دوستوں کے ساتھ رہنا، اٹھنا بیٹھنا اچھا لگنے لگا۔ ان کے مسلم دوست اجتماع میں جاتے تو وہ بھی ان کے ساتھ چلے جاتے۔ پھر ایک مرتبہ جب وہ اجتماع میں گئے تو وہاں ان کا تعارف ہوا کہ وہ غیر مسلم ہیں تو لوگوں نے ان کو تلگو زبان میں ’’ادے اسلام‘‘ نامی کتاب پڑھنے کو دی۔
احمد بھائی بتلاتے ہیں کہ اس کتاب میں مذہب اسلام کا تعارف اور اسلام کی بنیادی تعلیمات پڑھنے کے بعد انہوں نے طئے کیا کہ وہ بھی اسلام قبول کرلیں گے۔ کیا احمد بھائی کے لیے اسلام قبول کرلینا آسان تھا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتلایا کہ ان کے گھر والے نقاش تھے اور مجسمہ سازی ان کا خاندانی پیشہ تھا۔ وہ اپنے گھر کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ ان کے گھر میں 10، 15 فٹ کے مجسمے تیار ہوتے تھے لیکن گھر کے کسی فرد کو بھی اسلام کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔
احمد بھائی بتلاتے ہیں اُس رات بھر الٹا لٹکنے کے بعد ان کے پائوں کی رگیں جو پھول گئی تھی وہ آج بھی اس کا درد محسوس کرتے ہیں۔ بالآخر وہ اپنا گھر چھوڑ کر باہر نکلے اور اپنی تعلیم کا اور اپنے اخراجات خود جمع کرنے کے لیے کام کرنے کا آغاز کیا۔ انٹرمیڈیٹ پورا کیا۔ پھر ڈگری کامیاب کی۔ صبح صبح لوگوں کے گھروں پر اخبار ڈالا اور مجسمہ سازی کے بجائے سائن بورڈس اور بیانرس لکھنا شروع کیا۔ اردو سیکھی، اردو کے بیانرس اور بورڈ بنانے لگے۔ عربی سیکھی عربی کے بورڈ بنانے لگے۔
بھوکے پیٹ رہنا گوارہ کیا مگر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ اپنے رب سے دعا کرتے کہ ایمان کی دولت دی ہے تو عزت اور سلامتی والی زندگی بھی عطا فرما۔ مسجد کے کمرے میں تین سال گذارے۔ پھر بیٹری پیاکنگ کا کام کیا۔ طغرے بنانے لگے۔ اسکول میں ٹیچر کے طور پر تلگو اور انگلش پڑھانے لگے۔ ایک بچے کو ٹیوشن پڑھانے پر دس روپئے ملتے تھے۔ گائوں بدلا اور سائن بورڈ لکھنے لگے۔ 2 x 3 کا ایک بورڈ لکھتے تو 50 روپئے ملتے تھے۔ سائیکل پر گائوں گائوں جانا پڑتا تھا۔ ہمت نہیں ہاری اور شادی کا مرحلہ آیا تو ایک ہی شرط رکھی کہ مجھے ایسی لڑکی چاہئے جو اسلام سے لگائو رکھتی ہو اور مجھے اسلام سکھا سکتی ہو۔ کیونکہ احمد بھائی کا احساس تھا کہ روزگار کے چکر میں وہ اتنے مصروف ہوگئے ہیں کہ دین اسلام سیکھنے کے لیے الگ سے وقت ہی نہیں نکال سکتے۔ ایسے میں بیوی دیندار ہو تو دین گھر پر ہی سیکھا جاسکتا ہے۔
احمد بھائی کے مطابق الحمد للہ انہیں ایک نیک خاتون کا رشتہ ملا جو بڑی شکر گزار ہیں اور زندگی کے ہر قدم پر ان کا حوصلہ بڑھاتی ہیں۔ ساتھ انہوں نے کہا کہ ان کی بیگم ان کی جدو جہد سے بھری زندگی میں بڑی صابر رہی کہ کسی دن کھانا کم ملا تو بھی حرف شکایت زبان پر نہ لاتی اور نہ ہی اپنے ماں باپ سے شکایت کرتی۔شادی میں اگرچہ احمد بھائی نے والدین کو دعوت دی تھی لیکن ان لوگوں نے شرکت نہیں کی۔ البتہ شادی کے بعد والدہ اور بہن ان کی بیوی سے ملنے آئیں اور ان کی بیوی خوب برا بھلا کہا لیکن ان کی بیوی نے ان دونوں کی اپنے شوہر کی ہدایت کے مطابق اچھی تواضع کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ احمد بھائی کی والدہ جو کہ اپنے آبائی دین پر ہی تھی مرتے وقت بھی اپنی بہو کی تعریف کرتی رہیں کہ ہم نے اس کو اس کے گھر میں ہی برا بولا مگر وہ اف تک نہیں بولی۔
احمد بھائی کہتے ہیں کہ آج مسلمانوں کے ہاں دین اسلام صرف رسومات تک محدود ہوکر رہ گیا۔ مسلمان قرآن تو پڑھ رہا ہے مگر قرآن مسلمان سے کیا کہہ رہا ہے وہ مسلمانوں کو نہیں معلوم۔ ایسے میں دین مسلمانوں کی زندگی سے دور ہوگیا اور نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مسلمان لڑکیاں مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے، بڑے ہونے کے بعد بھی دیگر مذاہب کے لڑکوں کے ساتھ بھاگنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کہاں وہ گائوں کا ماحول جہاں بچپن میں انہوں نے دوستوں کے ساتھ رہ کر دین اسلام کو سمجھا اور سیکھا اور کہاں آج کی نوجوان نسل جو دین اسلام سے خود بھی واقف نہیں اور بس دوسروں سے نفرت کرنا سیکھ رہی ہے۔
احمد بھائی نے بتایا کہ انہوں نے حالیہ عرصے میں تین ایسے غیر مسلم لڑکوں کی کونسلنگ کی ہے جنہوں نے مسلم لڑکیوں کے ساتھ شادی کرلی تھی۔ ان کے مطابق مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کو دین اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے اب از سر نو منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اور پہلی ترجیح خود مسلمانوں کو دین اسلام کی حقیقی تعلیمات سے واقف کروانے کو دی جانی چاہیے۔انہوں نے سوال کیا کہ آج کا مسلمان نوکری کے لیے عربی زبان سیکھ رہا ہے تو اللہ کی کتاب قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے عربی سیکھنے کے لیے کونسی رکاوٹ ہے۔بہر حال احمد بھائی دائرے اسلام میں داخل ہونے کے بعد اپنی ذات سے خدمت خلق میں مصروف ہیں اور ہم پیدائشی مسلمانوں کو احمد بھائی کی زندگی اور کام سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم پیدائشی مسلمانوں کو بھی دین اسلام سمجھنے، قرآن پاک سمجھ کر پڑھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین ۔
sarwari829@yahoo.com