فقط اتنا سبب ہے انعقاد بزمِ محشر کا

   

مولانا حافظ سید محبوب حسین
اللہ بزرگ و برتر کا ارشاد ہے: ’’عَسٰى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا‘‘ آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود پر مبعوث کرے گا۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’مقام محمود مقام شفاعت ہے جو عرش کے داہنی جانب ہے، اس جگہ حضور علیہ و آلہٖ الصلاۃ و السلام کے سوا کوئی نہیں کھڑا ہوگا اس پر اولین و آخرین رشک و غبطہ کریں گے۔‘‘لغت میں شفاعت کے معنی ایک چیز سے دوسری چیز کو ملانا ہے اور یہ مدد کے معنی میں بھی ہے اور شریعت کی اصطلاح میں سزاکو اُٹھا لینا اور گناہوں سے درگزر کرنے کی درخواست کرنا۔ شرعی اور اصطلاحی معنی میں مناسبت یہ ہے کہ گویا شفیع اپنی شفاعت کے ذریعہ گناہ گاروں سے مل کر ان کو اپنے سینے سے لگا لے گا۔ مرقاہ شرح مشکوٰۃ میں ہے: شفاعت عقلاً جائز ہے اور شرعاً ثابت و حتمی ہے۔ اس بات میں آیات و احادیث بکثرت وارد ہیں۔
شفاعت کی ضرورت : اللہ تعالیٰ صمد و غنی ہے، وہ بے نیاز ہے: ’’یَفْعَلُ مَا یَشَآءُﭤ وَلَا يُسْاَلُ عَمَّا يَفْعَلُ ‘‘ اُس کی شان ہے تو پھر اس کے پاس شفاعت کی کیا ضرورت ہے۔ شفاعت کی ضرورت تو اس کے بندوں کو ہے۔ اس لئے انبیاء علیہ الصلاۃ و السلام کے سواء دنیا میں کوئی معصوم نہیں۔ گناہ گاروں اور خطا کاروں کے لئے اگر کوئی امید و رجاء کی ضرورت نہ رہے تو مایوسی پیدا ہوتی ہے اور جب مایوسی چھا جاتی ہے تو پھر حق کی طرف پلٹ کر نہیں آسکتے۔ اسی وقت آدمی پلٹ کر آتا ہے جب اس کے لئے امید کی کوئی کرن ہو، خطا کار کیلئے شفاعت ہی امید کی کرن ہے۔ شفاعت کی اُمید اُس کو مایوس ہونے سے بچائے رکھے گی۔ حق سے دور جانے کے باوجود جب اِس کو شفاعت کی اُمید نظر آتی ہے تو وہ پلٹ کر آئے گا۔ عقیدہ شفاعت کی وجہ سے آدمی ایمان پر قائم رہتا ہے اور ’’الایمان بین الخوف و الرجاء‘‘ کی کیفیت رہتی ہے۔ اگر شفاعت نہ ہوئی تو مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے اور مایوسی شیوۂ کافر ہے۔ ’’لاییأس من روح اللہ الا القوم الکافرون‘‘ اس منصب شفاعت پر باعث تخلیق کون و مکان سید المرسلین فائز ہیں۔ باب شفاعت کو آپ ہی کھولیں گے کیونکہ آپ حبیب اللہ اور خلوت خاص کی رازدار اور محبوب ہیں اور یہ کام صرف حبیب اللہ ہی کرسکتے ہیں اور بڑی چھوٹی ہر قسم کی شفاعتیں باب شفاعت آپؐ کے وا کرنے سے ہوں گی۔ جب آپؐ رب کے حضور سجدہ ریز ہوں گے، حمد و ثناء فرماتے ہوں گے تو ارشاد خداوندی ہوگا: یا محمدؐ ! اپنا سَر مبارک اُٹھایئے، مانگیئے! آپ جو چاہیں گے، دیا جائے گا۔ شفاعت کی غرض فضیلتہ الشیخ محمد علی صابونی ’’صفوۃ التفاسیر‘‘ میں سورۂ بقرہ کی ۴۸ ویں آیت کی تفسیر میں شفاعت کے معنی لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فھی اذا اظہر لمنزلہ الشفیع عندالمشفع‘‘ ساری کائنات پر آپ کی عظمت و شان و مرتبت کو ظاہر کرنا ہے۔ یہی مقصود شفاعت ہے۔
فقط اتنا سبب ہے انعقادِ بزم محشر کا
تمہاری شان محبوبی دکھائی جانے والی ہے
شفاعت کی دو قسمیں ہیں: (۱) شفاعت کبریٰ (۲) شفاعت صغریٰ۔شفاعت کبریٰ وہ شفاعت ہے جس کا فائدہ ساری خلقت کو پہنچے گا حتی کہ کفار کو بھی پہنچے گا اور شفاعت حضور علیہ الصلاۃ و السلام ہی کریں گے۔ اس شفاعت کی برکت سے حساب و کتاب شروع ہوجائے گا، قیامت کے میدان سے نجات ملے گی۔ یہ شفاعت قیامت کے اول وقت جبکہ عدل خداوندی کا ظہور ہوگا، حضور علیہ الصلاۃ و السلام ہی کریں گے۔ اس وقت کوئی نبی اس شفاعت کی ہمت نہ فرمائیں گے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک تمام انبیاء و رسل نفسی نفسی کہتے ہوں گے۔ جیسا کہ بخاری شریف، مسلم شریف اور تمام کتب صحاح میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ طلب شفیع کا ولولہ پہلے مسلمانوں ہی کے دلوں میں پیدا ہوگا پھر شفیع کی تلاش میں سارے انسان نکلیں گے، وہاں پہلے یہی کام وسیلہ والا ہوگا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی رہبری سے حضورؐ کی بارگاہ میں خلق پہنچے گی۔
شفاعت کی دوسری قسم شفاعت صغریٰ ہے۔ یہ شفاعت بھی حضور علیہ الصلاۃ و السلام کے باب شفاعت کو وا کرنے کی وجہ سے ہوگی۔ یہ شفاعت عدل خداوندی کے بعد ظہور فضل کے وقت ہوگی ،یہ شفاعت بہت لوگ کریں گے اور چھوٹے بچے بھی کریں گے بلکہ قرآن مجید، رمضان شریف ، عبادات اور خانہ کعبہ، مصلی وغیرہ بھی کریں گے۔
ظہور فضل کے وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام صالحین کیلئے حتی کہ انبیاء علیھم السلام کے رفع درجات کے لئے شفاعت فرمائیں گے اور گناہوں کی معافی کیلئے ہم گناہ گاروں کی شفاعت فرمائیں گے۔ آپ کی شفاعت سے انبیاء کرام بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ حضرت مولانا عبدالحق محدث دہلوی ’’اشعۃ اللمعات شرح مشکاۃ‘‘ اور ’’مدارج النبوۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ و السلام کی شفاعت نو (۹) قسم کی ہے۔ (۱) حساب شروع کرانے کیلئے جس کا فائدہ سب کو ہوگا۔ (۲) بغیر حساب و کتاب کے جنت میں پہنچانے کیلئے۔ (۳) جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہیں، ان کی نیکی کا پلہ وزن کرانے کیلئے۔ (۴) دوزخ کے لائق گناہ گاروں کو دوزخ سے چھڑانے کے لئے۔ (۵) صالحین کے درجے بلند کرانے کیلئے (۶) دوزخ میںگرتے ہوئے گناہ گاروں کو دوزخ سے نکلوانے کیلئے۔ (۷) جنت کا دروازہ کھلوانے کیلئے۔ (۸) اہل مدینہ اور زائرین روضہ اطہر کو اپنے قرب سے سرفراز کرنے کیلئے۔ (۹) بعض کفار کا عذاب ہلکا کرانے کیلئے (اشعۃ اللمعات)
حضورؐ کی شفاعت کے مقامات : عمومی شفاعت کی جگہ تو مقامِ محمود ہے اور خصوصی شفاعت کے اوقات یہ تین مقامات ہی ہوں گے۔ (1) پُل صراط (2) میزان عمل (3) حوض کوثر۔ ترمذی شریف میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث تفصیل کے ساتھ مروی ہے۔ ترمذی شریف، ابو داؤد شریف وغیرہ میں ہے: ’’شفاعتی لاھل الکبائر من امتی‘‘ میری شفاعت میری امت کے گناہ کبیرہ کے مرتکب افراد کے لئے ہے۔ یہ حدیث شریف بڑی ہمت افزا ہے، لہٰذا جہاں یہ آیا ہے کہ تم سے عذاب رفع نہیں کرسکتا، وہاں یہ مطلب ہے کہ اگر تم نے ایمان قبول نہ کیا تو تم میری شفاعت سے محروم رہوگے۔ باب شفاعت کو کھولنے کے بعد بہت سی مخلوق شفاعت کرے گی۔ اس کی تفصیل بھی احادیث میں ہے۔ ’’ان من امتی من یشفع للفئام الخ‘‘ میری اُمت ہی سے بعض لوگ وہ ہیں جو ایک جماعت کی شفاعت کریں گے، یہاں تک کہ یہ لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ ابن ماجہ شریف میں ہے: ’’یصف اھل النار‘‘ الخ ۔ کہ دوزخی لوگ صف بستہ ہوں گے جنتیوں میں سے ایک شخص ان پر سے گذرے گا تو کوئی دوزخی کہے گا میں نے تم کو پانی کا ایک گھونٹ پلایا تھا، کوئی کہے گا میں نے تمہیں وضو کا پانی دیا تھا، یہ جنتی ان کی شفاعت کرے گا اور اس کو جنت میں داخل کرائے گا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شفاعت ثابت ہے اور عقائد صحیحہ میں سے ہے۔ شفاعت جس سے ساری خلقت کو فائدہ ہوگا اور شفاعت کا اسی سے دروازہ کھلے گا۔ یہ صرف سیدالمرسلمین ،حبیب رب العالمین ،مالک کون و مکان ، مختار دوجہاں صلوات اللہ علیہ و علی آلہ و صحبہ و السلام ہی کے لئے خاص ہے اور یہ شفاعت واجب و طئے شدہ ہے اور ضرور ہوگی۔
اللہ تعالیٰ آپ کے قربِ خاص سے ہم کو سرفراز فرمائے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ شفیع المذنبین سیدنا محمد و علی آلہ و صحبہ و بارک و سلم اجمین۔