دید کے قابل ہے ہمدم یہ تضادِ قول و فعل
امن کا پرچار بھی جاری ہے بمباری کے ساتھ
جنگ سے متاثرہ غزہ پٹی اور فلسطین کے دیگر علاقوں کے عوام انتہائی نامساعد اور مشکل ترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے ۔ ان کو ادویات ‘ غذائی اجناس اور پینے کے پانی کی سہولتیں تک فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔ لوگ غذا کی قلت کی وجہ سے پریشان ہیں۔ چھوٹے اور معصوم بچے بلک رہے ہیں۔ انہیں نہ دودھ دستیاب ہے اور نہ ہی کھانا پانی مل رہا ہے ۔ ضعیف اور معمر افراد بھی بے طرح مسائل کا شکار ہوگئے ہیں۔ بیماروںکو ادویات فراہم کرنے کی سہولتیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ اور دوسرے فلسطینی علاقوں کی ناکہ بندی کردی گئی ہے ۔ کہیں معلنہ ناکہ بندی ہے تو کہیں غیرمعلنہ پابندیاں عائدکردی گئی ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر دیکھی جانی چاہئے ۔ انسانی بنیادوں پر غزہ اور فلسطین نے نہتے اور بے گناہ عوام کی مدد کی جانی چاہئے ۔ اسرائیل کی ظالمانہ اور بہیمانہ کارروائیاں الگ سے جاری ہیں۔ جب چاہے فضائی حملے کرتے ہوئے درجنوں بلکہ سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کیا جا رہاہے ۔ اسرائیل کو نہ دنیا کا خوف رہ گیا ہے اورنہ ہی عالمی قوانین کی کوئی پرواہ کی جا رہی ہے ۔ محض ظالمانہ اجارہ داری کو یقینی بنانے کیلئے یہ ساری کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ جنگ بندی معاہدہ کیا گیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ معاہدہ صرف دکھاوے کیلئے کیا گیا ہے اور اس معاہدہ کے تحت پابندیاں صرف حماس پر عائد ہوئی ہیںجبکہ اسرائیل کھلے عام سینکڑوں مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینیوںکو نشانہ بنا رہا ہے ۔ فضـائی حملے لگاتار کئے جا رہے ہیں اور انہیں نہتے عوام کو نشانہ بناتے ہوئے ان کو شہید کرنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے ۔ امریکہ ہو یا دوسری عالمی طاقتیں ہوں یا اقوام متحدہ جیسے نام نہادادارے ہوںسبھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ اسرائیل کی کٹھ پتلی بن کر کام کر رہے ہیں۔ عالمی اداروں کا وجود تو محض اسرائیل کی ظالمانہ اور بہیمانہ کارروائیوں کا جواز تلاش کرنے کی حد تک محدود ہوگیا ہے اور انصاف رسانی اور دنیا میں امن و امان کے قیام سے ان اداروں کا کوئی تعلق نہیں رہ گیا ہے ۔
فلسطینی علاقوں کی کئی اطراف سے ناکہ بندی کردی گئی ہے ۔ وہاں تحدیدات عائد کرتے ہوئے غذائی اجناس اور ادویات کی سپلائی کو بھی روک دیا گیا ہے ۔ اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی اس معاملے میں محض تماشائی بنا ہوا ہے ۔ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میںیہ ادارہ پوری طرح سے ناکام ہوگیا ہے ۔ یہ امریکہ اوراسرائیل کے اشار وں پر ناچتے ہوئے اپنے وجودکو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو رہا ہے بصورت دیگر دنیا کیلئے اور خاص طور پر مظلوم فلسطینیوں کیلئے اس ادارہ کا وجود بالکل ہی بے معنی ہو کر رہ گیا ہے ۔ فلسطین اور غزہ پٹی میں معصوم بچے غذا اور ادویات کیلئے بلک رہے ہیں۔ زخمی مرہم پٹی کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ ضعیف اور معمر افراد اس معاملے میں دنیا کی جانب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن کوئی ان کی مدد کیلئے آگے نہیں آ رہا ہے ۔ علاقہ کے مسلم اور عرب ممالک بھی اس معاملے میں خاموشی اختیار کرنے ہی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ بھوک اور پیاس کا شکار فلسطینیوں کی مدد کیلئے وہ کچھ نہیںکیا جا رہا ہے جو کچھ کرنا چاہئے اور یہ علاقہ کے ممالک کی ذمہ داری بھی ہے ۔ امریکہ اور اسرائیل کا خوف ان ممالک پر طاری دکھائی دیتا ہے اور یہ لوگ مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہوئے فلسطینیوںپر مظالم کی راہ مزید ہموار کر رہے ہیں۔ اپنے حال میں مست رہتے ہوئے فلسطینیوںسے منہ موڑا جا رہا ہے اور یہ رویہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ ساری دنیا بھی اس معاملے میں غفلت اور لاپرواہی برتنے کی مرتکب ہو رہی ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا فلسطینیوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کی جانب توجہ دے ۔ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے اور دوسری عالمی طاقتیں فلسطینیوںکے حال کا جائزہ لیں۔ انسانی بنیادوں پر ان کی امداد کی جائے ۔ انہیں دو وقت کی روٹی ‘ مریضوں اور زخمیوں کو ادویات کی فراہمی اور پینے کیلئے پانی فراہم کرنے پر توجہ دی جائے ۔ اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کی مخالفت کی جائے ۔ اس کی ناکہ بندیوں کو ختم کرنے کیلئے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا جائے تاکہ فلسطینیوں کی ضروری مدد ہوسکے اور انہیں کچھ راحت مل سکے ۔ دنیا کو انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کیلئے مزید خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہئے ۔