فلسطینی کاز اور میڈیا

   

وہ قوم ہی کرتی ہے دنیا کی نگہبانی
میدانِ جنگ میں جو قوم نکلتی ہے
فلسطین کا مسئلہ دنیا کے حساس ترین مسائل میں سے ایک ہے ۔ اس مسئلہ کی یکسوئی میں دنیا کو ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا ہے کیونکہ دنیا نے ابھی تک اس مسئلہ کی یکسوئی کی واجبی ‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ کوشش نہیں کی ہے بلکہ ہمیشہ ہی فلسطینیوں کے حقوق کو تلف کرنے اور غاصب اسرائیل کے مظالم کو جائز قرار دینے کی کوشش ہی کی گئی ہے ۔ امریکہ ہو یا اس کے حواری ممالک ہوں سبھی نے اسرائیل کی کٹھ پتلی کا رول نبھایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنے ظالمانہ اور غاصبانہ اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ مسلسل نو آبادیات قائم کرتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کی اپنی زمین سے محروم کر رہا ہے ۔ فلسطینیوں کا عرصہ حیات تنگ کیا گیا ہے اور ان کو زندگی کی بنیاد ضروریات تک فراہم یا میسر نہیں کروائی جا رہی ہیں۔ آج کے ماحول میں حماس کے حملوں کو بنیاد بناتے ہوئے اسرائیل کے تعلق سے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ وہ میڈیا بھی اسرائیل کے گن گانے میں مصروف ہوگیا ہے جن ممالک کی حکومتوں کا ہمیشہ مسلمہ موقف فلسطین کے حق میں رہا ہے ۔ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے فلسطین کے نہتے اور مظلوم عوام کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اسرائیل میں حماس کے حملوں سے ہوئے جانی نقصان پر تو بہت زیادہ شور شرابہ کیا جا رہا ہے لیکن گذشتہ کئی دہوں سے فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم پر کسی نے توجہ کرنا ضروری نہیں سمجھا ۔ ماضی کے مظالم کے بعد اب بھی اسرائیل نے جو جارحیت شروع کی ہے اور فلسطینی عوام کی زندگیوں کو ختم کرنے والے جو اقدامات کر رہا ہے اس پر بھی کوئی منہ کھولنے کو تیار نظر نہیں آتا ۔ کوئی تذکرہ کر رہا ہے تو محض حماس کی کارروائی کو بنیاد بناتے ہوئے اسے دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا جارہا ہے جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ فلسطینی عوام اپنی سرزمین پر اپنے حقوق کیلئے ظالمانہ اور غاصبانہ قبضہ کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور کوئی ملک یا کسی بھی ملک کا میڈیا ان کی آواز اٹھانے یا ان کے مسائل کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کو تیار نہیں ہے بلکہ ان کو دبانے ‘ کچلنے اور ختم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے ۔
دنیا اور اس کے میڈیا کو حماس کے حملے تو دکھائی دے رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کی جائز جدوجہد نظر نہیں آرہی ہے ۔ فلسطین کی زمین فلسطینی عوام کی ہے ۔ عربوں کی ہے ۔ اس پر فلسطینی عوام کا حق ہونا چاہئے لیکن اس حق کو گذشتہ کئی دہوں سے دبایا اور کچلا جا رہا ہے ۔ ان کا حق چھینا جارہا ہے اور ان کو غیر انسانی حالات میں زندگی گذارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے لیکن اس پر کوئی توجہ دینے کی بجائے صرف اور صرف ظالم ‘ قابض اور غاصب اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملانے اور فلسطینی عوام کی جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر دینے کی کوششوں میں مصروف ہوگیا ہے ۔ یہ ایک تلخ اور سچی حقیقت سے منہ موڑنے کی کوشش ہے جو دنیا نے اور زر خریدی میڈیا نے ہمیشہ کی ہے ۔ بات صرف فلسطین یا اسرائیل تک محدود بھی نہیں ہے ۔ دنیا کے تقریبا ہر مسئلہ کو اسی رنگ سے اور اسی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہیں سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا ہے ۔ دنیا اور میڈیا فلسطین کے نہتے اور بے بس عوام ‘ معصوم بچوں اور بیماروں اور زخمیوں کے حقوق کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہے صرف اسرائیل کے ہاتھوں استعمال ہونے میں مست ہے ۔ اسی طرح کی حق تلفیوں کے نتیجہ میں صورتحال بگڑتی گئی ہے اور دھماکو ہوتی جا رہی ہے ۔ پانی اور اادویات اور غذا جیسی بنیادی ضروریات کی تکمیل پر تک بھی دنیا کی کوئی توجہ نہیں ہے ۔ یہ دو نظری اور ڈوغلا پن ہے جو دنیا کے سب سے مظلوم عوام کے تعلق سے اختیار کیا جا رہا ہے ۔ اس کی مذمت کی جانی چاہئے ۔
آج دنیا اور اس کے میڈیا کو حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے ۔ اگر اسرائیل کے معصوم بچوں کے حقوق ہیں اور انہیں جینے کا حق ہے تو یہی حق فلسطین اور اس کے عوام کو بھی حاصل ہے ۔ اگر حماس قابل مذمت ہے تو اسرائیل اس سے کئی گنا زیادہ قابل مذمت ہے ۔ دنیا کے بڑے ممالک کو حق و انصاف کا ساتھ دینے کیلئے آگے آنا چاہئے۔ اقوام متحدہ جیسے ادارہ کو بھی کٹھ پتلی بنے رہنے کی بجائے اپنے قیام کے مقاصد کو پورا کرنا چاہئے ۔ ناانصافی اور حق تلفی کرنے والوں کو روکنا چاہئے اور انتہائی دبے کچلے اور مظلوم فلسطینی عوام کو ان کے جائز اور واجبی حقوق دلانے کیلئے کمربستہ ہو کر آگے آنے کی ضرورت ہے ۔