فلسطین ‘ دو قومی حل پر پیشرفت ضروری

   

ہم تو رات کا مطلب سمجھیں خواب، ستارے، چاند، چراغ
آگے کا احوال وہ جانے جس نے رات گذاری ہو
فلسطین میں آج جو صورتحال ہے وہ انتہائی تباہ کن ہے اور ساری دنیا کیلئے لمحہ فکر بھی کہا جاسکتا ہے ۔ خاص طور پر غزہ اور مغربی کنارہ میں اسرائیل کی جانب سے جو وحشیانہ اور ظالمانہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں جو انتہاء درجہ کے جنگی جرائم کے مترادف ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے ہ اس طرح کی کارروائیوںپر ساری دنیا نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ مغربی ممالک خاص طور پر اس معاملے میں دوہرے معیارات اختیار کررہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ امریکہ کے موقف کے برخلاف موقف اختیار کرنے سے خوف کھا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں لگاتار اسرائیل کی کارروائیوں کی مذمت ہو رہی ہے اس کے باوجود امریکہ اسرائیل کی لگاتار تائید و حمایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور فلسطین میں جاری نسل کشی اور جنگی جرائم کے ارتکاب پر نہ صرف خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے بلکہ اس کا جواز بھی پیش کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ اسرائیل کے وزیر اعظم اور دوسرے وزراء کی جانب سے فلسطین کی ریاست کا تصور ہی ختم کردینے کا دعوی کیا جا رہا ہے لیکن امریکہ اس پر بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ اسرائیل کے گنتی کے چند یرغمالیوں کو اتنی اہمیت دی جا رہی ہے کہ ان کے بدلے میں ہزاروں نہتے ‘ بے بس اور بھوکے پیاسے فلسطینیوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے ۔ حماس کا عذر اور بہانہ پیش کرتے ہوئے عام فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے اور امریکہ اس کی حمایت کرتا جا رہا ہے ۔ کچھ ممالک نے حالانکہ فلسطین کے حق میں آواز اٹھائی ہے اور فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ ان میں برطانیہ ‘ کناڈا اور آسٹریلیا بھی شا مل ہیں۔ کچھ دوسرے ممالک نے بھی فلسطین کو تسلیم کرلیا ہے لیکن صرف ایک ریاست تسلیم کرنے پر اکتفاء نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ مسئلہ فلسطین کے مستقل اور دیرپاحل کو یقینی بنانے کیلئے دو قومی حل برآمد کرنے کی کوششوں میں تیزی لائی جانی چاہئے ۔ جب تک فلسطین کی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آجاتا اس وقت تک اس مسئلہ کی یکسوئی کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ اس سے قبل اسرائیل کو اپنے جارحانہ اور توسیع پسندانہ منصوبوں سے روکنا اور لگام کسنا بھی ضر وری ہے۔
خود اسرائیل عالمی سطح پر کسی کو بھی خاطر میں لانے تیار نہیں ہے ۔ اقوام متحدہ میں منظور کی جانے والی قرار دادوں کو بھی قبول نہ کرنے کا بارہا اعلان کرچکا ہے اور ان قرار دادوں کی خلاف ورزی کے لگاتار اقدامات کرتا چلا جا رہا ہے ۔ غزہ اور اب مغربی کنارہ کے آباد شہروں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ کئی بستیوں کو اجاڑ دیا گیا ہے اور ان کی حالت قبرستانوں سے بھی بدتر کردی گئی ہے ۔ اس کے باوجود دنیا کی خاموشی انتہائی افسوسناک ہے اور خاموشی اختیار کرنے والے ممالک اسرائیل کے مظالم میں برابر کے شریک ہیں۔ چونکہ فلسطین اور خاص طور پر غزہ اور مغربی کنارہ کی صورتحال لگاتار بگڑتی جا رہی ہے اور قتل عام اور نسل کشی کا سلسلہ رک نہیں پا رہا ہے ایسے میں ضروری ہوگیا ہے کہ دنیا دیگر تمام مسائل کو پس پشت ڈال دے اور صرف مسئلہ فلسطین کی یکسوئی اور دو قومی حل دریافت کرنے کی کوششوں کا پوری سرگرمی کے ساتھ آغاز کرے ۔ اب جبکہ برطانیہ ‘ کناڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک نے مملکت فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے تو انہیں دو قومی حل د ریافت کرنے کی سمت پیشرفت کیلئے بھی آگے آنا چاہئے ۔ عالمی سطح پر سفارتی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔ امریکہ پر اثر انداز ہونے کیلئے بھی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ اسرائیل کے منصوبوں کو روکنے کیلئے مہم چلائی جانی چاہئے اور اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں کے ذریعہ ایک ایسا ماحول تیار کیا جانا چاہئے جس میں اسرائیل کیلئے اپنے وحشیانہ اور سفاکانہ منصوبوں پر عمل کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہ جائے ۔
انسانی حقوق کے دعوے کرنے والے مغربی ممالک کے ساتھ عرب اور اسلامی ممالک کو بھی اس معاملہ میں ذمہ دارانہ پہل کرنی چاہئے ۔ انہیں آگے آتے ہوئے اجلاس منعقد کرنے چاہئیں ۔ دنیا بھر کے ممالک کو مدعو کرتے ہوئے اسرائیل پر دباؤ بنانے کی حکمت عملی بنا نی چاہئے ۔ امریکہ اور اسرائیل دونوں پر بیک وقت دباؤ ڈالا جانا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ دو قومی حل دریافت کرنے میں یہ ممالک بھی تیار ہوجائیں ۔ دنیا میں انسانیت کو شرمسار ہونے سے بچانے کیلئے تمام انسانی حقوق کے علمبردار ممالک اور انصاف پسند اداروںکو مزید کوئی وقت ضائع کئے بغیر یہ کوششیں پوری سنجیدگی کے ساتھ شروع کرنی چاہئیں۔