فلسطین سے چشم پوشی کیوں

   

یہ بے رخی، یہ تلخیاں، یہ بدگمانیاں
ہم سے ستم ظریفیٔ دوراں نہ پوچھئے
فلسطین دنیا کا وہ خطہ بن گیا ہے جس سے دنیا کے تقریبا تمام ممالک نے ایک طرح سے لا تعلقی کا اظہار کردیا ہے اور اسرائیل اپنی ظالمانہ ‘ وحشیانہ اور غیرانسانی حرکتیں جاری رکھے ہوئے ہے ۔ کچھ ممالک فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ صرف ایک دکھاوا ہی کہا جاسکتا ہے اور حقیقی معنوں میں کوئی اس تعلق سے کوئی مثبت اور ٹھوس قدم اٹھانے اور ساری دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ آج سارے فلسطین اور خاص طور پر غزہ کا جو حال کردیا گیا ہے وہ ساری دنیا اور ساری انسانیت کیلئے شرمناک کہا جاسکتا ہے ۔ یہ سوال پیدا ہونے لگے ہیں کہ آیا آج دنیا میں کسی طرح کی انسانیت بچی بھی ہے یا نہیں۔ غزہ میں بھوک مری کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور معصوم بچے بھی ایک وقت کی روٹی کیلئے بلک رہے ہیں۔ مریضوں کیلئے دوائیں نہیں ہیں۔ انسان اب وہاں ڈھانچوں کی شکل اختیار کرنے لگے ہیں۔ ایک وقت کی روٹی اور غذا حاصل کرنے کیلئے درجنوں افراد کی جانیں گنواننے کو تک لوگ تیار ہوگئے ہیں اوردنیا اپنی خام خیالیوں میں مست ہے ۔ دنیا میں کہیں جنگ بند کروانے کی بات کی جا رہی ہے تو کہیں تجارت کوفروغ دینے کے اقدامات ہو رہے ہیں ۔ کہیں انسانی حقوق کی بات ہو رہی ہے تو کہیں علاقائی توازن برقرار رکھنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ اگر دنیا کی کسی جانب توجہ نہیں ہے تو وہ فلسطین کا خطہ ہے ۔ فلسطین کے تعلق سے ساری دنیا نے آنکھیں بند کرلی ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ وحشی و غاصب اسرائیل وہاں اپنی وحشیانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے ۔ خاص طور پر عربدنیا اور مغربی ممالک اس سارے مسئلہ سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ کچھ ممالک امدادی ساز و سامان سے لدے مٹھی بھر ٹرک روانہ کرتے ہوئے خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ امریکہ اور اس کے حواری اسرائیل کے اس اعلان پر بھی خاموش ہیں کہ آزاد مملکت فلسطین کا تصور ہی ختم کردیا جائے گا ۔ غزہ میں جو نئی بستیاں قائم کرنے کا منصوبہ ہے وہ در اصل گریٹر اسرائیل کی سمت پیشرفت ہے اور اسرائیل اس کا کھلے عام اعلان بھی کر رہا ہے ۔
فلسطینیوں کی آج جو حالت کردی گئی ہے وہ ساری دنیا کیلئے شرمناک ہے ۔ دنیا کے دوہرے معیارات یہاں دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ایک طرف دو مملاک کی برابر کی جنگ میں انسانی جانوں کے اتلاف پر تو افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے اورا ن ہلاکتوں کو روکنے کی بات کی جا رہی ہے لیکن فلسطین میں بھوکے اور نہتے فلسطینیوں کی درجنوں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں شہادتوں پر خاموشی اختیار کی جا رہی ہے ۔ غذا فراہم کرنے کے نام پر فلسطینیوں کو شہید کیا جا رہا ہے ۔ ساری کی ساری بستیاں اجاڑ دی گئی ہیں۔ خاندان کے خاندان شہید کردئے گئے ہیں۔ بچے یتیم و یسیر ہوگئے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں رہ گیا ہے ۔ انہیں پیٹ بھرنے کیلئے روٹی اور پیاس بجھانے کیلئے پانی تک دستیاب نہیں ہے اور مغربی طاقتیں اور خاص طور پر امریکہ اور اس کے حواری اسرائیل کے حقوق کی بات کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ساری دنیا اس معاملے میں تماشائی بنی ہوئی ہے اور عرب ممالک بھی اس معاملے میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فلسطین کے مسئلہ پر توجہ دی جائے ۔ دنیا کے تمام مسائل کو ایک طرف رکھ کر سب سے پہلے اور سب سے سرعت کے ساتھ فلسطین کے حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے ۔ فلسطینیوںکو بھی عام انسانوں کی طرح زندگی گذارنے کا موقع دیا جائے ۔ان کے انسانی حقوق کی حفاظت کی جائے ۔ ان کے پیٹ بھرے جائیں۔ ان کی پیاس بجھائی جائے اور ان کی زندگیوں کا تحفظ کیا جائے ۔
عرب ممالک کو خاص طور پر اس معاملے میں حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے اپنے اقتدار کی برقراری کیلئے جدوجہد کرتے حکمرانوں کو نہتے اور بھوکے فلسطینیوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل پر توجہ کرنی چاہئے ۔ ساری دنیا کی توجہ اس سنگین انسانی بحران کی سمت مبذول کروانے کی ضرورت ہے ۔ اقوام متحدہ اور امریکہ پر اثر انداز ہونا چاہئے کہ وہ اس جانب توجہ کریں۔ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کو روکیں۔ فلسطینیوں کی بے دریغ شہادتوں کا سلسلہ روکا جائے اور وہاں انسانیت کو شرمسار کرنے والی کارروائیوں کا خاتمہ کیا جائے ۔ یہ حقیقت ہے کہ فلسطین کی تباہی کی ذمہ داری ساری دنیا پر عائد ہوتی ہے ۔