تم جو نہیں تو گھر میں وہ اب بات ہی نہیں
دیوار و در کی بات تو دیوار و در میں ہے
اسرائیل اور حماس کے مابین گذشتہ دو برس سے جاری جنگ بالآخر ختم ہوگئی ۔ قیدیوں کا تبادلہ بھی عمل میں آگیا ہے ۔ اسرائیل کے وہ تمام قیدی جو حماس کی قید میں تھے انہیں رہا کردیا گیا ہے ۔ مصر کے شہر شرم الشیخ میں جنگ بندی کے معاہدہ پر دستخط ہوگئے ۔ معاہدہ پرع مل آوری کا آغاز پہلے ہی ہوگیا تھا ۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ اس معاہدہ پر دستخط کی تقریب میں شرکت کرنے پہونچ گئے ۔ پہلے وہ اسرائیل گئے ۔ تل ابیب آمد کے بعد ٹرمپ نے اسرائیل کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا ۔ جب وہ پارلیمنٹ سے خطاب کر رہے تھے ان کے سامنے موافق فلسطین اشارے دکھلائے گئے ۔ دو اسرائیلی ارکان پارلیمنٹ نے یہ اشارے دکھائے ۔ ان دونوںکو فورا ہی ایوان سے باہر کردیا گیا ۔ بھلے ہی دو ارکان کو ایوان سے باہر کردیا گیا ہو اور ان کے خلاف شائد کوئی کارروائی بھی کی جائے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ بندی معاہدہ کی جس طرح سے تشہیر کی جا رہی ہے اور صدر ٹرمپ اس کیلئے واہ واہی بٹورنے میں لگے ہوئے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک کی جانب سے جنگ بندی کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے اور ٹرمپ کیس تائش کی جا رہی ہے تو یہ ضروری ہے کہ جنگ بندی پر مسرت کا اظہار کرنے کے ساتھ فلسطین کی تعمیر جدید پر توجہ دی جائے ۔ فلسطین کے لاکھوں شہریوں کو ان کے گھروںمیں بسانے کے انتظامات کئے جائیں۔ بیس لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے ہی ملک اور اپنے ہی شہر میں بے گھر ہوگئے ہیں۔ ان کے گھروں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ ان کی بستیوںکو اجاڑ دیا گیا ہے ۔ جو علاقے کبھی زندگی کی علامت ہوا کرتے تھے اب وہاں سناٹوں کا شور ہے اور صرف تباہی کے مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر دنیا بھر کے ممالک کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جنگ بندی ہونی تھی اور وہ ہوگئی ہے ۔ جنگ بندی کو حقیقی معنوں میں جنگ بندی بنانا ہے تو پھر فلسطین کی تعمیر جدید پر توجہ دینا ہوگا ۔ اس جنگ بندی کو محض چند قائدین کی واہ واہی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے اور نہ ہی ٹرمپ کی ستائش تک محدود کیا جانا چاہئے ۔ ایسا کیا گیا تو جنگ بندی کے مقاصد کی تکمیل نہیں ہوگی ۔
یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ لگاتار دو برس جنگ میں رہنے کے بعد خود اسرائیل کیلئے ایک وقفہ ضروری ہوگیا تھا اور اسی لئے جنگ بندی کی گئی ۔ اگر واقعتا دنیا مشرق وسطی میں امن قائم کرنا چاہتی ہے اور امن کو فروغ دیا جانا ہے تو پھر فلسطین کی تعمیر جدید پر توجہ دی جانی چاہئے اور دوقومی حل کو یقینی بنانے کیلئے بھی اقدامات کا آغاز کیا جانا چاہئے ۔ جو بستیاں اجاڑ دی گئی ہیں وہاں زندگی کو بحال کرنے کیلئے اقدامات کرنے ہونگے ۔ نہ صرف گھروں اور عمارتوں کی تعمیر ہونی چاہئے بلکہ سارے غزہ اور مغربی کنارہ کے علاوہ خان یونس میں بھی ان تمام دواخانوں کو عصری سہولیات کے ساتھ بحال کرنا چاہئے جنہیں اسرائیل نے اپنی وحشیانہ بمباری کے ذریعہ تباہ و برباد کردیا ہے ۔ وہ تمام اسکولس دوبارہ کھڑے کئے جانے چاہئیں جنہیں اسرائیل نے تاراج کردیا ہے ۔ جو ہزاروں فلسطینی شہید ہوگئے ہیں انہیں تو کوئی واپس نہیں لاسکتا لیکن جو فلسطینی زخمی ہوئے ہیں ان کے علاج و معالجہ کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے ۔ فلسطینی عوام جن بنیادی سہولتوں سے محروم کردئے گئے ہیں ان تمام کی بحالی پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ادویات اور پینے کے پانی تک سے فلسطینیوں کو محروم کردیا گیا تھا ۔ دنیا میں اگر ذرہ برابر بھی انسانیت باقی ہے تو پھر غزہ اور مغربی کنارہ میں پانی کی سپلائی بحال ہونی چاہئے اور ادویات کے ذخائر پہونچائے جانے چاہئیں۔ ان سب اقدامات کے بغیر جنگ بندی کے حقیقی مقاصد کی تکمیل ممکن نہیں ہو پائے گی ۔
جس طرح سے محض جنگ بندی کا جشن منایا جا رہا ہے اور تعریفیں وصول کی جا رہی ہیں وہ مسئلہ فلسطین کا حل نہیں ہے ۔مملکت فلسطین کا قیام اس مسئلہ کا حل ہوسکتا ہے اور اس کیلئے دنیا کو انصاف پسندی کے جذبہ کے ساتھ پہل کرنے کی ضرورت ہے ۔ غزہ کے جن علاقوں پر اسرائیل نے ظالمانہ قبضہ کیا ہے انہیں برخواست کیا جانا چاہئے ۔ فلسطینیوں کی سرزمین ان کے سپرد ہی رہنی چاہئے اور اسرائیل کو مستقبل کی جارحیت اور وحشیانہ کارروائیوں سے گریز کیلئے بھی پابند کیا جانا چاہئے ۔ جتنا جلد ممکن ہوسکے فلسطین کی تعمیر جدید پر دنیا کے انصاف پسند ممالک اور اداروں کو آگے آنے اور دوسروں کو متوجہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔