گزرتے وقت کا ہر دن خواتین میں فیشن کے نت نئے رجحانات لے کر نمودار ہوتا ہے اور ڈائمنڈ جیویلری کی بڑھتی مقبولیت اکیسویں صدی کے انہی رجحانات میں سے ایک ہے۔اس نایا ب پتھر کو عربی و فارسی میں الماس، سنسکرت میں بیرک، انگریزی میں ڈائمنڈ اور اردو میں ہیرا کہتے ہیں ۔ اسے خوش بختی کی علامت اور بیماریوں کو ٹھیک کرنے کیلئے طاقتور پتھر مانا جاتا ہے۔ خواتین میں ڈائمنڈ پہننے کا رواج کوئی نیا نہیں یہ صدیوں سے امراء میں پہنا جانے والا خاص زیور ہے۔تاہم کچھ عرصے سے ڈائمنڈ پہننے کا رواج ہر خاص و عام میں مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ڈیزائنر کی جانب سے گولڈ، پلاٹینیم کے ساتھ ساتھ ڈائمنڈ جیویلری کے بھی اتنے خوب صورت اور منفرد ڈیزائن متعارف کرائے جا رہے ہیں کہ ان پر نظر ٹھہر سی جاتی ہے اور عام خواتین بھی اسے خریدے بغیر نہیں رہ پاتیں ، اور کیوں نہ خریدیں، آخر انہیں بنایا ہی ان کیلئے جاتا ہے ۔بھاری زیورات کے علاوہ ڈائمنڈ کی نفیس اور قیمتی جیویلری کا استعمال بھی ایک مخصوص طبقے میں زیادہ کیا جانے لگا ہے جن میں ہیرے کی انگوٹھیاں خواتین کا خاص انتخاب ہوتی ہیں۔ خواتین کی خوبصورتی میں اضافے کا بھی باعث بنتی ہے تو بالآخر ہیروں کی آب و تاب کسے پسند نہیں ہو گی۔ نوعمر لڑکیاں بھی ایئر رنگز کیلئے ڈائمنڈز کا انتخاب کرنے لگی ہیں۔چونکہ یورپ کی خواتین ڈائمنڈ کی ہلکی پھلکی جیویلری کو ترجیح دیتی ہیں اس لئے وہاں جیویلری کے طور پر قیمتی پتھر کی انگوٹھی یا گلے میں وائٹ گولڈ کی ایک نفیس اور خوبصورت سی چین کا استعمال بھی کافی سمجھتی ہیں۔ یہی نہیں خواتین زیورات کی بڑھتی مقبولیت سے متاثر ہو کر ان کے زیورات کی نقل کر کے پہننے لگی ہیںجو اصلی زیور سے بہت کم داموں میں مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ ڈائمنڈ صدیوں سے دنیا کی سب سے قیمتی اور نایاب شے مانا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈائمنڈ ماضی میں بھی دنیا کی حسین ترین عورتوں، ملکاوں اور شہزادیوں کے زیورات، بادشاہوں کے لباس اور تاج کی زینت بنتا اور شاہی پتھر کے نام سے مقبول ہوا۔ہیرے کا شفاف بلوری رنگ روشنی میں قوس و قزح کے رنگ دیتا ہے ۔ بادشاہوں، راجاوں اور حاکموں کے دور میں کوہِ نور کو دنیا کا مشہور ترین، قیمتی اور اپنی نوعیت کا سب سے بڑا ہیرا تسلیم کیا جاتا ہے۔