قافلے لوٹنے لگے …

   

کے این واصف
(ریاض، سعودی عرب)

دنیا کے کونے کونے سے مقدس شہر ’’مکہ مکرمہ‘‘ میں جمع ہوئے لاکھوں حجاج نے 8 ذی الحجہ کو لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے خیموں کے شہر ’’منٰی ‘‘کو آباد کیا تھا۔ اس سارے صحرا کو ایک روحانی ماحول اور انسانی وجود سے پرنور کردیا تھا۔ اب وہی شہر پھر سے ایک سال کیلئے ویرانی کی تصویر بن گیا ہے۔ حج کا یہ عظیم اجتماع اب تک دنیا کے دیگر اقوام کیلئے ایک حیرت میں ڈالنے والا اجتماع عظیم ہے۔ لوگوں کیلئے لاکھوں نفوس پر مشتمل اس اجتماع کا یکجا ہونا اور اتنے بڑے اجتماع کیلئے آنے جانے، رہنے بسنے، کھانے پینے، صفائی ستھرائی کے بے جھول انتظامات کا کیا جانا واقعی ایک حیران کن حقیقت ہے۔ 1994ء میں جب میں اپنے پہلے حج کی ادائیگی کے بعد جب وطن پہنچا تو میرا ایک قریبی غیرمسلم دوست ملنے آیا۔ اس نے حج کے اس اجتماع سے متعلق مجھ سے کئی سوال کئے اور آخر میں مقدس مقامات پر صفائی سربراہی آب اور Sanitation وغیرہ سے متعلق سوال کے جواب پر وہ انگشت بہ دندان رہ گیا جب میں نے اس کو بتایا کہ وہاں راستوں میں نہ کوڑا کرکٹ نظر آتا ہے، نہ کبھی Dranage کے گٹر اُبلتے نظر آتے ہیں۔
اس سے قبل کہ ہم دنیا کے اس عظیم ترین اور بے مثال اجتماع سے متعلق اس سال کی روداد کی مزید تفصیل پیش کریں ہم چاہیں گے کہ 1400 سال سے زائد عرصہ سے جاری حج کے سلسلے کی تاریخ کے کچھ اوراق گزشتہ پر نظر ڈالیں۔ صحرائے عرب کے اس مقدس شہر مکہ مکرمہ میں تعمیر اس بیت اللہ اور وہاں پابندی کے ساتھ ہر سال مسلمانان عالم کی حاضری سے متعلق کچھ دلچسپ اعداد و شمار قارئین کے مطالعہ کی نذر کریں۔ حال میں جاری سعودی محکمہ اعداد و شمار کے ایک اعلامیہ کے مطابق گزشتہ 50 سال کے دوران 95 ملین 53 ہزار 17 افراد نے فریضہ حج ادا کیا اور سعودی عرب کو ان کی میزبانی کا شرف رہا۔ ہر سال حاجیوں کی گنتی کا کام محکمہ اعداد و شمار کرتا ہے۔ یہ کام 1390ھ میں شروع کیا گیا تھا۔ حج پر آنے والوں کو معیاری خدمات فراہم کرنے کیلئے اعداد و شمار جمع کئے جاتے ہیں تاکہ منصوبہ بندی ٹھوس بنیادوں پر کی جاسکے۔ سعودی محکمہ اعداد و شمار ہر سال حاجیوں کی تعداد، انہیں پیش کی جانے والی خدمات کی فہرست اور حج اداروں کی کارکردگی کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرتا ہے۔ محکمہ کے جاری اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ گزشتہ 50 برسوں کے دوران 9,58,53,017 عازمین حج کو سعودی عرب آئے۔ 19 حج ایسے آئے جن میں سے ہر ایک میں حاجیوں کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ گزشتہ 25 برسوں کے دوران 5,44,65,253 افراد حج کرنے آئے۔
سعودی خبر رساں ادارہ SPA کے مطابق امسال بیرون ملک سے بری، بحری اور فضائی راستوں سے 8 اور 9 ذی الحجہ کی درمیانی شب تک 15,16,101 عازمین سعودی عرب پہنچے۔ ان میں سے 14,12,894 فضائی راستے، 86,359 خشکی کے راستے اور 16,848 سمندری راستے سے آئے۔ واضح رہے کہ سوڈان، مصر اور بعض آفریقی ممالک سے عازمین سمندر کے راستے سے جدہ آتے ہیں۔ ماضی قریب میں ہندوستان سے بھی حجاج سمندری راستے ہی سے حج پر جایا کرتے تھے، جنہیں شاید بمبئی سے جدہ پہنچنے میں پانچ سے سات دن لگتے تھے۔
8 ذی الحجہ سے 13 ذی الحجہ تک منٰی میں قیام پذیر حجاج کرام اپنی آخری رمی جمرات کرکے مکہ کی طرف لوٹتے ہیں۔ مقامی افراد تو منٰی سے سیدھے حرم مکی پہنچ کر طواف ِ وداع کے بعد اپنے اپنے شہر لوٹ جاتے ہیں اور ان سطور کے مطالعہ میں آنے تک حجاج کی تقریباً آدھی تعداد سعودی عرب سے لوٹ چکی ہوگی۔ بیرونی ممالک سے آنے والے حجاج جو آج کل ایک ماہ یا اس سے بھی کم مدت کے حج پیاکیج پر آتے ہیں، وہ اپنے وطن لوٹ گئے ہیں۔ حج پیاکیج میں جو عازمین ماہ ذی الحجہ سے کچھ قبل آجاتے ہیں، انہیں سیدھے مدینہ منورہ لے جایا جاتا ہے تاکہ وہ مسجد نبویؐ میں 40 نمازیں ادا کرنے کی سعادت حاصل کرلیں اور تاخیر سے آنے والے سیدھے جدہ آتے ہیں۔ مناسک حج کی ادائیگی کے بعد مدینہ منورہ لے جائے جاتے ہیں۔ اب وہ زمانے گئے جب لوگ حج پر آتے تو چار تا چھ ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصہ یہاں گزار کر واپس ہوتے تھے، بلکہ اکثر کی تو یہ خواہش ہوتی کہ ان کے مقدس شہروں میں قیام کے دوران ہی عرصہ حیات تمام ہوجائے اور وہ اس سرزمین میں پیوند خاک ہوجائیں، تیز رفتاری سے دوڑتی اس دنیا میں اب ایسی فکر یا جذبے رکھنے والے ناپید ہوگئے ہیں۔ اب تو حجاج کی جانب سے WhatsApp پر بھیجی گئی تصویریں دیکھ کر دکھ اور شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف مقامات مقدسہ میں بلکہ رمی جمرات اور طواف کعبہ اور مسجد نبویؐ میں حاضری اور سلام پیش کرتے ہوئے بھی ویڈیو بناتے، اور تصویرکشی کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے فوری طور پر واٹس ایپ اور فیس بُک وغیرہ پر جاری کردیتے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے سکیورٹی فورسیس نے مسجد نبویؐ کے اندر اور طواف کے صحن میں تصویرکشی پر پابندی عائد کی ہے تو حرم مکی اور مسجد نبویؐ کے اندر یہ سلسلہ کم ہوگیا ہے، یعنی لوگ اللہ کے خوف سے نہیں بلکہ سعودی سکیورٹی فورسیس کے خوف سے حرمین میں کھلے عام اب تصویرکشی نہیں کرتے۔ اصل میں پہلے لوگ جب فریضۂ حج کی ادائیگی کیلئے جاتے تھے تو ان کی زندگی میں ایسی نمایاں تبدیلی آجاتی تھی کہ ان کے طرز زندگی پتہ چلتا تھا کہ یہ حج کے فریضہ کی ادائیگی سے ہوکر آئے ہیں۔ انہیں تصویروں یا ویڈیوز کے ذریعہ دکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کہ وہ حج کر آئے ہیں۔
خیر! ہم نے بات شروع کی تھی کہ حجاج کے قافلوں کے پہنچنے اور واپس لوٹنے سے جیسا کہ ہم نے بتایا کہ وہ جو ماہ ذی الحجہ سے قبل آئے تھے، وہ واپس لوٹ گئے ہیں اور جو تاخیر سے آئے تھے، وہ اب مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ جہاں وہ مسلسل 40 نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام کریں گے اور پھر اپنے وطن لوٹیں گے۔ ایام تشریق کی ابتداء سے قبل سعودی محکمہ موسمیات نے یہ پیش قیاسی کی تھی کہ اس سال حج سیزن کے دوران موسم شدید گرم رہے گا اور ابتدائی ایام میں رہا بھی۔ مگر یوم عرفہ سے اس علاقہ میں وقفہ وقفہ سے بارشیں بھی ہوتی رہیں۔ تیز ہواؤں کا سلسلہ بھی رہا جس سے مناسک حج کی ادائیگی میں حجاج کو معمولی طور سے دشوری کا سامنا رہا۔ ہندوستانی حجاج کے نگران اعلیٰ اور سفیر ہند ڈاکٹر اوصاف سعید سے ہم مسلسل رابطہ میں رہے۔ انہوں نے بتایا کہ تیز ہواؤں اور بارش کی وجہ سے حجاج کو مناسک کی ادائیگی میں کوئی بڑی مشکل پیش نہیں آئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام ہندوستانی حجاج کرام بخیر و عافیت ہیں اور اپنے مناسک سکون و اطمینان کے ادا کررہے ہیں۔
فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے ہر سال لاکھوں مسلمان مرد و خواتین دنیا کے مختلف ممالک سے یہاں یکجا ہوتے ہیں۔ دنیا کے تمام مسلمان آج اپنے اپنے ملک میں کسی نہ کسی طرح کی پریشانی یا مشکلوں کا شکار ہیں اور ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری نااتفاقیاں، ہمارے آپسی اختلاف اس کی بنیادی وجہ ہے لیکن حج کے اس عالمی اجتماع میں حجاج اپنے مسائل پر کوئی اجتماعی طور پر گفتگو نہیں کرتے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، لیکن ہر حاجی انفرادی طور پر اپنے ملک میں اپنے مسائل کے خاتمہ کیلئے بارگاہ رب العزت میں دعا تو کرسکتا ہے۔ وقوفِ عرفہ میں قادر مطلق کے آگے گڑگڑا سکتا ہے۔ بس اب رب الارباب ہماری مدد فرمائے۔ ہمیں اغیار کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہونے سے بچائے۔ ہماری جان و مال ہماری عزت و آبرو ہمارے دین و ایمان کی حفاظت فرمائے۔
ویژن 2030ء اور حج
’’ویژن 2030ء ‘‘ یہ سعودی عرب کا ایک طویل مدتی ترقیاتی منصوبہ ہے جس میں ہر شعبہ کیلئے ترقی کا پلان ہے۔ حج کا انتظام مملکت سعودی عرب کیلئے ایک اہم ترین خدمت ہے، لہذا ویژن 2030ء کے منصوبہ میں حج انتظامات میں نئی سہولتوں کو متعارف کرنا اور جدید ٹیکنالوجی کی سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں ترقی دینا ہے۔ معروف سعودی صحافی عبدالرحمن الراشد نے ویژن 2030ء میں حج پروجیکٹ کو ترقی کے عنوان سے ایک معلوماتی مضمون لکھا ہے جس کے کچھ اقتباس قارئین کیلئے پیش ہیں۔
’’اللہ کے مہمانوں کی خدمت ‘‘کے عنوان سے پروگرام جو سعودی ویژن 2030ء کا انتہائی اہم حصہ ہے، کے بارے میں اب تک بہت کم بات ہوئی ہے، پروگرام کا مقصد حج اور عمرہ خدمات میں ایک نمایاں تبدیلی لائی جائے جس سے پوری دنیا نہ صرف متاثر رہے بلکہ اس میں دلچسپی کا اظہار بھی کرے۔ اس پروگرام کا ہدف سالانہ 3 کروڑ معتمرین (عمرے پر آنے والے) اور 50 لاکھ عازمین حج کی خدمت کرنا ہے۔ ان دنوں حج اور عمرہ کیلئے 90 لاکھ لوگ آرہے ہیں۔ اس تناظر میں نیا ہدف معمولی ہے۔ یہ تعداد موجودہ مسائل کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہے۔ جب یہ پروگرام مکمل ہوگا اور ساڑھے تین کروڑ زائرین پہنچنے لگیں گے تب سال کا تقریباً ہر دن حج کا دن لگے گا۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سربراہی میں مکہ سمیت منٰی، مزدلفہ اور عرفات کیلئے رائل ڈیولپمنٹ اتھاریٹی قائم کردی ہے۔ محمد بن سلمان ہی سعودی ویژن 2030ء کے روح رواں ہیں۔ وہ سعودی عرب کو تبدیلی کرکے دنیا کا ترقی یافتہ ملک بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔
امید کرتے ہیں کہ جدید سہولتوں سے آراستہ نیا شہر بنے گا۔ یہاں سالانہ ساڑھے 3 کروڑ زائرین جدید سہولتوں سے فیضیاب ہوں گے۔ یہاں زائرین ان دنوں دو ہفتے کیلئے آتے ہیں، مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا اور لوگ سال بھر آتے جاتے رہیں گے۔ یاد رہے کہ سعودی عوام اور حکومت دونوں ہی زائرین کی خدمت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ اس طرح سالانہ ساڑھے 3 کروڑ زائرین کی خدمت سعودی عرب کیلئے نشان امتیاز بن جائے گی۔٭
تبصرہ کیلئے KN Wasif@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔