پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ
انڈین پیانل کوڈ ( تعزیرات ہند ) 1960 ، قانون شہادت ہند اور ضابطہ فوجداری 1973 ء قانون فوجداری کی تکونی ساخت تشکیل دیتے ہیں ۔ واضح رہے کہ تعزیرات ہند کے مصنف تھامسن ینگ ٹن مکاولے تھے جو پہلے لا کمیشن کے صدر بھی تھے جبکہ سر جیمس فٹز جیمس اسٹیفن نے قانون شہادت کے مصنف کے طورپر شہرت پائی ۔ آپ کو بتادیں کہ پہلے ضابطہ فوجداری 1898 ء اس وقت منسوخ کردیا گیا جب 1973 ء میں اس کی جگہ ایک اور قانون منطور کیا گیا چنانچہ ہم بنا کسی جھجک کے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ تینوں قوانین کا ہر روز ملک بھر کی عدالتوں میں اطلاق ہوتا ہے باالفاظ دیگر ملک بھر میں ہزاروں ججس اور ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد وکلاء (ایڈوکیٹس ) (ان میں ایک اچھی خاصی تعداد فوجداری وکیل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی ہے ) اور ہر روز ان لوگوں کا قانون شہادت ہند ، ضابطہ فوجداری اور قانونِ فوجداری تینوں سے سامنا رہتا ہے ۔ آپ کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ہر جج ہر وکیل (ایڈوکیٹ) تعزیرات ہند کی دفعہ 302 کے باب میں اچھی طرح جانتا ہے کہ کسی کے قتل کی صورت میں اس دفعہ کا استعمال ہوتا ہے ۔ ججس صاحبان اور ہمارے ملک کے وکلاء یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ قانون شہادت یا گواہی کی دفعہ 25 کے تحت اگر کوئی ایک پولیس عہدیدار کے سامنے اقبال جرم کرتا ہے اس کے ذریعہ کسی کو ملزم ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔ ہمارے جج صاحبان اور وکلاء برادری یہ بھی جانتی ہے کہ ضمانت قبل از گرفتاری اور ضمانت کی دفعات میں سی آر پی سی کے سیکشن یا دفعات 437 ، 438 اور 439 بھی موجود ہیں ۔ ان تینوں قوانین کے کئی درجن ایسی دفعات ہیں جن کے بارے میں ججس اور وکلاء اچھی طرح سے واقف ہیں۔
اصلاح کا موقع گذر گیا: جہاں تک قوانین کی اصلاح کا سوال ہے قوانین کی اصلاح ایک اچھا خیال ہے کسی قانون کی اصلاح کا مطلب یہ نہیں ہے کہ موجودہ دفعات کو ازسرنو ترتیب دیا جائے یا اُن کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔ موجودہ وقت اور حالات میں فوجداری قانون کیسا ہونا چاہئے ۔ اس کا ایک بہت بڑا فلسفہ ہونا چاہئے اگر دیکھا جائے تو قانون کو بدلتی اقدار ، اخلاقیات اور عوام کی خواہشات و اُمنگوں کے مطابق ہونا چاہئے اگر دیکھا جائے تو Modern Crimnology اور مجرمین و جیل خانوں سے متعلق مطالبہ کو نئے قانون میں مناسب انداز میں ظاہر کیا جانا چاہئے ۔
دفعات کی ازسرنو ترتیب : لیکن مذکورہ تینوں بلز میں ہم کیا پاتے ہیں ؟ قانون کے کئی ممتاز اسکالرس نے تینوں بلز کا بغور مطالبہ کیا اور ہم نے پایا کہ تعزیرات ہند کی 90-95 فیصد دفعات نئے مسودہ میں کٹ اینڈ پیسٹ کی گئیں۔ آئی پی سی کے 26 چیاپٹرس میں سے 18 چیاپٹرس ( تین چیاپٹرس میں ہر ایک میں ایک سیکشن ہے ) کی نئے بل میں نقل کی گئی ہے اور اہم بات یہ ہے کہ اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں اس کا برملا اعتراف بھی کیا ہے ۔ آئی پی سی کی 511دفعات میں سے 24 دفعات کو حذف کیا گیا اور 22 دفعات کو ان میں شامل کیا گیا ہے ۔ مابقی دفعات کی درجہ بندی کی گئی لیکن انھیں دوبارہ نمبر دیا گیا ان کی ازسرنو ترتیب کی گئی جبکہ آئی پی سی میں ترامیم کے ذریعہ چند تبدیلیاں بآسانی کی جاسکتی تھیں۔ یہی کہانی قانون شہادت اور سی آر پی سی کی ہے، قانون شہادت کی 170 دفعات میں سے ہر دفعہ کو کٹ اینڈ پیسٹ کیا گیا ۔ آپ کو بتادوں کہ 95 فیصد سی آر پی سی کو کٹ اینڈ پیسٹ کیا گیا اور اس کیلئے جو تمام تر کوششیں کی گئیں وہ ضائع ہوگئیں۔ مزید براں یہ کہ اگر بلز منظور ہوتے ہیں تو پھر ناپسندیدہ نتائج کا باعث بنیں گے ۔ ان سے نہ صرف ہزاروں لاکھوں ججس ، وکلاء ، پولیس عہدیداروں ، پیشہ قانون کی تدریس سے وابستہ اساتذہ ( قانون کے اساتذہ ) ، قانون کے طلبہ یہاں تک کہ عام لوگوں کو مشکلات ہوں گی انھیں قوانین کے بارے میں ازسرنو سیکھنا پڑے گا ۔ جہاں تک بلز کے متن یا مواد کا سوال ہے اس کی چند خوبیاں ہیں جو قابل خیرمقدم ہے اور ان ہی خوبیوں پر حکومت پارلیمنٹ میں روشنی ڈالے گی ۔ میں چاہتا ہوں کہ بل کے ان خوبیوں پر روشنی ڈالوں جن پر سوالات اُٹھائے جارہے ہیں یا آنے والے دنوں میں اُٹھائے جاسکتے ہیں۔
زوال پذیر دفعات : عالمی سطح پر سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے ۔ حقوق انسانی کی تنظیمیں اس مطالبہ کو لیکر بہت چیخ و پکار کررہی ہیں اس کے باوجود سزائے موت کو برقرار رکھا گیا ہے ۔ اگر ہم اپنے ملک میں سزائے موت سے متعلق مقدمات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ 6 برسوں کے دوران عدالت عظمیٰ ( سپریم کورٹ ) نے صرف 7 مقدمات میں سزائے موت کی توثیق کی ہے ۔ پیرول کے بناء کسی کی طبعی زندگی کی مابقی قید حقیقت میں ایک سخت سزاء ہے ۔ اس کے علاوہ خاطی کیلئے اصلاح کا موقع دیا جانا چاہئے ۔
اب بات کرتے ہیں ناجائز تعلقات کی ، ہم اسے مرضی سے قائم کئے جانے والے جنسی تعلقات بھی کہہ سکتے ہیں ، یہ ایک جرم کے طورپر واپس آگیا ہے ۔ زنا یا ناجائز تعلقات شوہر اور بیوی کے درمیان کا معاملہ ہے ۔ اگر ان کے درمیان باہمی اعتماد ٹوٹ جاتا ہے یا ختم ہوجاتا ہے تو ایک دوسرے سے ناراض شوہر اور بیوی طلاق یا پھر سول ہرجانہ کیلئے مقدمہ دائر کرسکتے ہیں جبکہ ان کی زندگیوں میں ریاست کو دخل اندازی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 457 کو سپریم کورٹ نے ختم کردیا تھا ۔ اسے اب صنفی غیرجانبداری کی شکل میں واپس لایا گیا ہے ۔ دوسری طرف سزائے موت یا عمرقید کو بغیر کسی وجہ یا وجوہات کے ریکارڈ کرنے سے متعلق عاملہ کااختیار دستور کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے ۔ اسی طرح قید تنہائی ایک ظالمانہ اور غیرمعمولی سزاء ہے ۔ بعض مقدمات میں میڈیا پر عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ پر مقننہ کی پابندی غیردستوری ہے ۔ قانون انسداد غیرقانونی سرگرمیاں ( یو اے پی اے ) کے ذریعہ دہشت گردانہ سرگرمیوں سے مناسب طریقے سے نمٹا جاتا ہے اور اُنھیں نئے پیانل کوڈ کے تحت لانے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
اسی طرح اسسٹنٹ سیشن جج کے عہدہ کو ختم کرنا بھی غلط ہے کیونکہ اس سے سیشن جج پر بہت زیادہ بوجھ پڑے گا اور یہی اپیل ہائیکورٹ میں ہوگی جس سے ہائیکورٹ کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا ۔ اور ہاں ہتھکڑی لگانے کی اجازت صرف اُسی صورت میں دی جانی چاہئے جب گرفتارشدہ کو ریمانڈ کیلئے لایا جاتا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ گرفتاری کی ضرورت اور قانونی حیثیت کے بارے میں مطمئن ہو آپ کو یہ بھی بتادیں کہ نئے سی آر پی سی کی شق 187(2) پولیس عہدیداران ججس کے درمیان اس غلط معروضہ یا نظریہ کی عکاسی کرتی ہے کہ کسی گرفتار شدہ کو پولیس کی تحویل میں یا عدالتی تحویل میں بھیجا جانا چاہئے ۔ مجھے اس سلسلہ میں جسٹس کرشن ایئر کی یہ نصیحت یاد آتی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ مجسٹریٹس ’’کسی بھی طرح تحویل میں ‘‘ تیسرے متبادل کو نظرانداز کرتے ہیں حالانکہ شق 254 تفتیشی عہدیدار کو آڈیو ویژول موڈ کے ذریعہ شواہد اکٹھا کرنے کی اجازت دیتا ہے جو حقیقت میں کھلی عام عدالت میں منصفانہ مقدمہ کے اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔ نیا بل یہ واضح کرنے میں بھی ناکام ہوگیا کہ بیل از دی رول جیل از ایکسپشس نتیجہ میں دفعہ 482 زوال سے دوچار ہوجاتی ہے ۔
بہرحال حکومت کی نیت یہی ہے کہ میکاولے اور جیمس اسٹیفسن کے بنائے گئے قوانین کو کاپی پیسٹ کرکے اسے اپنی کامیابی قرار دے ۔