حائل ہے مگر آج بھی ہم دونوں میں دیوار
تو خود بھی سمجھدار ہے میں خود بھی سمجھدار
قبل از وقت انتخابات سرویز کی حقیقت
ملک میں انتخابات کا ماحول گرماتا جا رہا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں شدت اختیار کرگئی ہیں۔ ہر گوشے سے کوششیں ہو رہی ہیں کہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ کامیابیاں حاصل کی جائیں۔ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان اقتدار کی جنگ گھمسان کی ہوتی جا رہی ہے ۔ ان سرگرمیوں کے دوران ایک گوشہ ہے جو خاموشی سے رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے ۔ یہ زرخرید اور غلامانہ ذہنیت رکھنے والا میڈیا ہے ۔ یہ میڈیا جہاں پیشہ ورانہ دیانتداری کو ترک کرتے ہوئے ایک مخصوص سوچ و فکر کو رائے دہندوں کے ذہنوں پر مسلط کرنا چاہتا ہے وہیں حقیقی مسائل سے ان کی توجہ بھی ہٹائی جا رہی ہے ۔ جذباتی نعروں اور غیر اہم مسائل کو ہوادیتے ہوئے رائے دہندوں کے حواس پر ایک طرح کا جنون طاری کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر چار دن میں کسی نہ کسی گوشے کی جانب سے ایک سروے کے دعوے بھی سامنے آرہے ہیں اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ اس سروے میں کس پارٹی کو کتنی نشستیں ملیں گی اس کا جائزہ شامل ہے ۔ یہ سروے در اصل سیاسی جماعتوں کی جانب سے کروائے جانے والے اور نتائج بھی ان کے اپنے انداز سے پیش کئے جانے والے ہوتے ہیں اور بیشتر سروے ایسے ہوتے ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ بیشتر موقعوں پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جو میڈیا گھرانے اور دوسرے ادارے سروے جاری کرتے ہیں ان کی اپنی نوعیت الگ ہوتی ہے ۔ یہ مخصوص ادارے ہیں جو ہمیشہ اس طرح کے سروے کرتے ہیں لیکن جب انتخابات کا وقت قریب ہوتا ہے تو کئی مینڈک کنووں سے باہر نکل آتے ہیں اور ٹرانے لگتے ہیں۔ آج کل پیش کئے جانے والے بیشتر سرویز کی حقیقت بھی ایسی ہی ہے ۔ یہ سرویز حقائق سے کافی دور ہوتے ہیں اور یہ در اصل رائے دہندوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہوتے ہیں تاکہ انہیں ایک مخصوص جماعت کے حق میں ووٹ دینے راغب کیا جاسکے ۔ یہ کام ان سیاسی جماعتوں کا زر خرید میڈیا انجام دیتا ہے ۔ یہ ایسے ادارے ہوتے ہیں جو انتخابات کے بعد پھر کہیں نظر نہیں آتے اور گوشہ گمنامی میں چلے جاتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ ہر سیاسی جماعت ملک میں انتخابات کی سرگرمیوں میں مصروف ہے ۔ ہر جماعت رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے اور انہیں راغب کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہی ہے ویسے میں اگر عوام کو سوچنے ‘ سمجھنے کا موقع فراہم نہ ہو اور ان کے ذہنوں پر ایک مخصوص سوچ کو مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو ‘ حقائق کو توڑ مروڑ کر اور اپنے ہی انداز میں پیش کیا جائے ‘ تصویر کا دوسرا رخ سامنے لانے سے گریز کیا جائے یہ کام جمہوری عمل کے مغائر کہا جاسکتا ہے ۔ یہ جمہوریت کے ساتھ مذاق کے برابر ہے اور یہ ہمارے ملک کی عظیم جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے برابر ہے ۔ ہر ایک کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے اپنا نقطہ نظر اور اس کی سوچ ہوتی ہے اور اس کا اظہار بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس نقطہ نظر کو ملک کے عوام کا سوچ اور ان کا موقف بتاکر پیش کرنا پیشہ ورانہ دیانت کے تقاضوں کے بھی مغائر ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ آج کل میڈیا جیسے اہم ترین پیشے میں جسے جمہوریت کا چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے پیشہ ورانہ دیانت کا فقدان پیدا ہوگیا ہے ۔ میڈیا در اصل کارپوریٹ گھرانوں کی شکل اختیار کرگیا ہے اور اس کیلئے بھی اپنے مفادات اور عزائم کی تکمیل ہی واحد مقصد رہ گیا ہے جو اس پیشے سے کھلواڑ ہے اور اس کی اہمیت اور افادیت کو ختم کیا جا رہا ہے ۔
انتخابات کے موسم میں اس طرح کے فرضی سروے پیش کرتے ہوئے رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کو الیکشن کمیشن کی جانب سے روکنے کی بھی ضرورت ہے ۔ کمیشن کی جانب سے حالانکہ اوپینین پول پیش کرنے پر پابندی ہے اسی طرح قبل از وقت سرویز کیلئے بھی ایک حد مقرر کرنے کی ضرورت ہے اور جو ادارے ایسے سرویز کرتے ہیں ان کی غیر جانبداری اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بھی پیش نظر رکھتے ہو ئے فیصلے کئے جانے چاہئیں۔ جو لوگ پیشہ ورانہ دیانت اور اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کے اس طرح کے سرویز کو مسترد کرنے اور ان کی اشاعت اور تشہیر پر پابندی بھی عائد کرنے کی ضرورت ہے ۔ انتخابات کے عمل کو شفاف اور آزادانہ اور منصفانہ بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ایسے سرویز کی حقیقت کو سمجھا جائے اور ان کے اثر کو قبول کرنے سے گریز کیا جائے ۔
اڈوانی سے سشما سوراج کی ہمدردی
بی جے پی کی سینئر لیڈر سشما سوراج نے کانگریس صدر راہول گاندھی کی ایک تقریر پر اعتراض کیا ہے جس میں انہوں نے بی جے پی کی جانب سے پارٹی کے بانی قائدین میں شامل ایل کے اڈوانی کو پارٹی میں نظر انداز کردئے جانے کا حوالہ دیا تھا ۔ سشما سوراج نے آج کہا کہ اڈوانی پارٹی قائدین کیلئے والد جیسی شخصیت ہیں اور ان کے تعلق سے ریمارک کرنے سے کانگریس قائدین کو گریز کرنا چاہئے اوران کا احترام کرنا چاہئے ۔ سیاست میں ایک دوسرے کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے کی روایت رہی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں احترام اور روایات و اقدار کا پاس و لحاظ رکھا جانا چاہئے ۔ تاہم سشما سوراج کو اڈوانی سے اس وقت ہمدردی ہونی چاہئے تھی جب انہیں پارٹی میں بالکل ہی حاشیہ پر کردیا گیا تھا ۔ یقینی طور پر پارٹی کیلئے اڈوانی والد جیسی شخصیت ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اسی پارٹی نے اپنے والد کو اپنے گھر میں رکھنے کی بجائے عملا اولڈ ایج ہوم منتقل کردیا ہے ۔ انہیں پارٹی نے لوک سبھا سے مقابلہ کا موقع تک نہیں دیا اور کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ ان سے کوئی مشاورت تک نہیں کی گئی اور انہیں پوری طرح نظر انداز کرکے امیت شاہ کو ان کے حلقے سے پارٹی ٹکٹ کا اعلان تک کردیا گیا ۔ راہول گاندھی نے اڈوانی کے تعلق سے کوئی منفی ریمارک نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ بی جے پی میں روا رکھے گئے سلوک کا تذکرہ کیا جس پر سشما سوراج کو اچانک ہی اڈوانی سے ہمدردی پیدا ہوگئی ہے ۔ انہیں اس وقت ہمدردی دکھانے کی ضرورت تھی جب پارٹی نے انہیں انگشت ششم سمجھتے ہوئے بالکل ہی نظر اندا ز کردیا اور انہیں ٹکٹ سے بھی محروم کردیا ۔ اڈوانی نے اپنے بلاگ میں بی جے پی میں داخلی جمہوریت کا مسئلہ بھی موضوع بحث بنایا تھا اور ان کی رائے سے بیشتر گوشو ںکو اتفاق ہے کہ پارٹی میں اب کوئی داخلی جمہوریت نہیں رہ گئی ہے اور یہ صرف دو افراد کے اشاروں پر کام کرنے والی جماعت بن گئی ہے ۔ سشما سوراج کی اڈوانی سے سیاسی قربت رہی ہے ۔ انہیں راہول کے ریمارکس پر نہیں بلکہ پارٹی کے سلوک پر رد عمل ظاہر کرنا چاہئے تھا۔