قتل و خون کا سلسلہ کب ختم ہوگا ؟

   

دلوں پہ دیجئے دستک پھر محبت کی
گھروں سے لوگ نکلتے نہیں صدا کے بغیر

تہذیب و تمدن کا شہر حیدرآباد ان دنوں قتل گاہ کی تصویر پیش کر رہا ہے ۔ لگاتار قتل کے واقعات پیش آتے جا رہے ہیں جس کے نتیجہ میں عام شہریوں میں احساس عدم تحفظ پیدا ہونے لگا ہے ۔ چند دن قبل یکے بعد دیگر پانچ نوجوانوں کے قتل کے الگ الگ واقعات پیش آئے تھے ۔ اب تازہ ترین صورتحال میں تقریبا 12 گھنٹوں کے فرق میں قتل کے دو واقعات پیش آئے ہیں۔ ایک واقعہ چادر گھاٹ پولیس حدود میں تو دوسرا نارسنگی میں پیش آیا ہے ۔ صورتحال عوام کیلئے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے اور پولیس کی جانب سے محض ضابطہ کی تکمیل کی جا رہی ہے اور جرائم کے بعد مجرمین کے خلاف کارروائی پر اکتفاء کیا جا رہا ہے ۔ جرائم کی روک تھام اور ان کے سدباب پر کوئی توجہ نہیں کی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ عام قیاس اور تاثر ہے کہ نشہ آور اشیا کا استعمال اس طرح کے واقعات کی اصل وجہ ہے ۔ شہر کے کچھ نوجوان گانجہ ‘ چرس ‘ شراب نوشی ‘ نشہ آور ادویات اور دیگر منشیات کے استعمال کے عادی ہوگئے ہیں۔ حالت نشہ میں انہیںاچھے برے کی تمیز باقی نہیں رہ جاتی ۔ وہ اپنی زندگیوں کی پرواہ نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کی جان لینے سے انہیں کوئی گریز ہوتا ہے ۔ پولیس کی جانب سے کسی کے قتل کے بعد مجرمین کی تلاش اور ان کی گرفتاری اور پھر عدالت میں پیشکشی پر اکتفاء کیا جا رہا ہے ۔ اس طرح کے واقعات میں سزائیں دلانے پر زیادہ توجہ نہیںدی جاتی ۔ کچھ مقدمات میں یقینی طور پرسزائیں بھی دلوائی گئی ہیں تاہم یہ طریقہ کار کارآمد ثابت نہیں ہو رہا ہے ۔ پولیس کو جرائم کے سدباب اور ان کی روک تھام پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر مشنیات ‘ گانجہ وغیرہ کی فروخت اور ایسی ادویات کی فروخت کو روکنے کی ضرورت ہے جنہیں نشہ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ شہر میںکئی نوجوان پٹرول ‘ تھنر اور وائیٹنر جیسی اشیا کا استعمال کرتے ہوئے بھی نشہ کرنے لگے ہیں۔ گانجہ کا چلن عام ہوتا چلا گیا ہے ۔ ان اشیا کی فروخت کو روکنا پولیس کی ذمہ داری ہے ۔ ان اشیا کی فروخت بجائے خود ایک جرم ہے اور اس کے نتیجہ میں سماج و معاشرہ میں برائیاںپھیل رہی ہیں اور کئی مجرمین پیدا ہو رہے ہیں۔ قتل و خون و غارت گری کے واقعات بھی نشہ کی عادت کی وجہ سے بڑھ رہی ہیں۔
حالات پر قابو پانے کے مقصد سے پولیس کی جانب سے مشن چبوترہ کیا جا رہا ہے ۔ نوجوانوں کو راتوں میں گھروں سے باہر رہنے پر عدالتوں سے سزائیں دلائی جا رہی ہیں۔ بازار بند کروائے جا رہے ہیں۔ ہوٹلوں اور پان شاپس کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے تاہم نتیجہ صفر کی برآمد ہو رہا ہے ۔ اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ نشہ آور ادویات کے چلن اور گانجہ و دیگر منشیات کی فروخت پر کوئی کنٹرول نہیں رہ گیا ہے ۔ اس کے علاوہ غیر قانونی شراب کی فروخت بھی دھڑلے سے کی جا رہی ہے ۔ شہر میں کچھ مخصوص مقامات ہیں جن کے تعلق سے دعوی کیا جاتا ہے کہ وہاں نشہ آور اشیا کھلے عام فروخت ہوتی ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں سے لوگ وہاں پہونچ کر اپنے مطلب کی شئے حاصل کرلیتے ہیں۔ ایسے عناصر کی نشاندہی کرنا اور گانجہ وغیرہ کی فروخت پر قابو پانا پولیس کیلئے بہت ضروری ہوگیا ہے ۔ اس کیلئے خصوصی ٹیموں کی تشکیل عمل میں لائی جانی چاہئے ۔ انہیںنشہ آور اشیات کی فروخت ‘ غیر قانونی شراب اور گانجہ وغیرہ کی فروخت کو روکنے کی ذمہ داری دی جانی چاہئے ۔ ایک ٹارگٹ کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ انسانی جانوں کے اس طرح سے اتلاف پر خاموشی اختیار نہیںکی جانی چاہئے ۔ سماج اور معاشرہ کو اس طرح کی برائیوں اور لعنتوں سے چھٹکارہ دلانے کیلئے جامع منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ضابط کی کارروائی اور محض کچھ اقدامات ایسی لعنتوں کے خاتمہ میں معاون نہیںہوسکتے ۔ اس کیلئے ایک مشن کی طرح کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
حیدرآباد شہر کا امن و امان اور لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پر اس طرح کے واقعات سے اثر پڑ رہا ہے ۔ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے تمام کے تمام ذمہ دار گوشوں اور حلقوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے پولیس کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ سماج میں شعور بیدار کرتے ہوئے اس طرح کی لعنتوں کے خلاف مہم چلائی جانی چاہئے ۔ قتل کا ارتکاب کرنے والوں کے دلوں اور ذہنوں میں قانون کا خوف پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کی وجہ سے ہونے والی مشکلات اور سماج پر اثرات کے تعلق سے بھی شعور بیدار کیا جانا چاہئے تاکہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام اور ان کا سد باب ممکن ہوسکے ۔ حیدرآباد شہر کی نیک نامی کو متاثر کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔
یو پی ‘ ضمنی اسمبلی انتخاب دلچسپ ہوگا
ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی اعتبار سے اہمیت کی حامل ریاست اترپردیش میں اسمبلی کی 10 نشستو ں کیلئے ضمنی انتخاب ہونا باقی ہے ۔ اس سلسلہ میںآئندہ چند مہینوں میں الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا جاسکتا ہے ۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات کے جو نتائج رہے ہیں ان کی وجہ سے اترپردیش میں سیاسی صورتحال دلچسپ ہوگئی ہے ۔ بی ایس پی اپنے وجود کو عملا ختم کرچکی ہے اور بی جے پی کیلئے عوامی تائید کافی حد تک گھٹ گئی ہے ۔ ایسے میں سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے کیڈر میں جو ش و خروش دکھائی دیتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی خاموش تماشائی رہے گی تاہم یہ بھی طئے ہے کہ مقابلہ یکطرفہ اور بی جے پی کیلئے آسان نہیں رہے گا ۔ سماجوادی پارٹی اور کانگریس کی جانب سے اتحاد کرتے ہوئے مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور دونوں جماعتیں کوشش کریں گی کہ آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنے موقف کو مستحکم بنائے ۔ جو عوامی تائید ان جماعتوں کو مل رہی ہے اس کو مزید مستحکم کیا جائے اور عوام کے سامنے یہ دعوی کیا جائے کہ سماجوادی پارٹی اور کانگریس اتحاد ہی بی جے پی کا متبادل ہے ۔ صورتحال بہت دلچسپ ہوسکتی ہے اور اس کے نتائج آئندہ اسمبلی انتخابات پر اثرانداز بھی ہوسکتے ہیں۔