وزیر اعظم نریندر مودی نے جھارکھنڈ میں بے قصور مسلم نوجوان تبریز انصاری کے بہیمانہ قتل کے واقعہ پر پارلیمنٹ میں بیان دیا ۔ مودی نے ایسا طرز عمل اختیار کیا جس میں وہ ایک طرف تو قتل کی مذمت کرتے ظاہر نظر آنا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف انہوں نے جھارکھنڈ کے دفاع پر زیادہ توجہ دی ہے ۔ انہوں نے یہ ایک طرح کا سیاسی بیان دیتے ہوئے بری الذمہ ہونے کی کوشش کی ہے ۔ نریندر مودی نے صرف اتنا کہنے پر اکتفاء کیا کہ اس قتل کے واقعہ پر سبھی کو بشمول انہیں بھی افسوس ہے اور خاطیوںکو سخت سے سخت سزائیں ملنی چاہئے ۔ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ بی جے پی حکومت کے سربراہ ہوتے ہوئے جھارکھنڈ حکومت پر زور دینگے یا نہیں کہ وہ خاطیوں کے خلاف کسی نرمی کے بغیر کارروائی کیلئے زور دینگے ۔ نریندر مودی نے راجیہ سبھا میں دئے گئے اپنے بیان میں قتل کی مذمت سے زیادہ جھارکھنڈ کے دفاع پر توجہ دینے کی کوشش کی ہے کیونکہ جھارکھنڈ میں انہیں کی پارٹی بی جے پی کی حکومت ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہیں مسلم نوجوانوں کو مختلف حیلے بہانوں سے موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ جن خاطیوں کے خلاف مقدمات درج کئے جار ہے ہیں ان کے خلاف پیروی انتہائی کمزورا نداز میں کی جا رہی ہے اور انہیں عدالتوں سے ضمانتیں دلوانے کے بعد مرکزی وزراء کی جانب سے ان کی گلپوشی کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جس وقت 2014 میں بی جے پی نے ملک میں پہلی معیاد کیلئے اپنی حکومت بنائی تھی اسی وقت سے ملک میں مسلم نوجوانوں کو گوشت اور گائے کے نام پر ہلاک کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا اور ان میں بیشتر یا تقریبا صد فیصد واقعات بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں پیش آئے ہیں۔ مرکز میں بی جے پی کی پہلی معیاد کے دوران بھی اس طرح کے واقعات پیش آئے تھے اور اس وقت بھی سارے ملک میں بے چینی کی فضاء پیدا ہوگئی تھی تاہم سابقہ معیاد میں بھی نریندر مودی نے اس مسئلہ پر ایسی بیان بازی کی تھی جس سے حملہ آوروں کے حوصلے ہی بلند ہوتے رہے تھے ۔
جھارکھنڈ وہ ریاست ہے جہاں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہے اور وہاں ہجوم کے ہاتھوں قتل یا پھر لنچنگ کا واقعہ پہلی مرتبہ پیش نہیں آیا ہے ۔ اس سے قبل بھی جھارکھنڈ میں ایک سے زائد واقعات پیش آئے ہیں۔ ریاستی حکومت سے اس سلسلہ میں رپورٹ طلب کرنے اور کارروائی کیلئے مرکز سے دباؤ ڈالنے کی بجائے نریندر مودی کی جانب سے جھارکھنڈ کا دفاع کرنے پر توجہ دی گئی جس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں لنچنگ یا قتل کے واقعات پر افسوس نہیں ہے بلکہ وہ صرف اپنی پارٹی کی حکومت کی شبیہہ کے بگڑنے پر فکرمند ہیں ۔ انہیں بی جے پی حکومت کی رسوائی اور بدنامی گوارا نہیں ہے چاہے ریاست میں کتنے ہی واقعات کیوں نہ پیش آجائیں۔ ایک بے قصور مسلم نوجوان کو اس قدر مارپیٹ کی جاتی ہے کہ وہ زخموں سے چور ہوتا ہے اور پولیس اسے دواخانہ منتقل کرنے کی بجائے جیل بھیجتی ہے ۔ جیل میںاس کے زخموں کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے تو مجبوری کی حالت میں دواخانہ منتقل کیا جاتا ہے اور وہ وہاں فوت ہوجاتا ہے ۔ یہ ایسا واقعہ ہے جو مہذب ہندوستان کے ماتھے پر کلنک ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات اب ہندوستان میں معمول بنتے جا رہے ہیں بلکہ شناخت بنتے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت ان واقعات کی روک تھام کی بجائے ان پر سیاست کرنے کو ترجیح دے رہی ہے جو اور بھی افسوس کی بات ہے ۔
مغربی بنگال میں یا ملک کی کسی اور جماعت کے اقتدار والی ریاست میں اگر کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو مرکزی حکومت رپورٹ طلب کرلیتی ہے ‘ گورنر سے بات چیت شروع ہوجاتی ہے ‘ بیان بازیوں میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جاتی لیکن بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں سلسلہ وار انداز میں قتل کے واقعات فاشسٹ عناصر کے ہاتھوں مسلسل انجام پا رہے ہیںاس کے باوجود ان کے خلاف کارروائی محضـ رسمی انداز میں کی جاتی ہے یا پھر کہیں کوئی کارروائی ہی نہیں کی جاتی ۔ وزیر اعظم نے جس طرح پارلیمنٹ میں کہا ہے واقعی اگر انہیں مسلم نوجوان کی ہلاکت پر افسوس ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ جھارکھنڈ حکومت کو جوابدہ بنائیں۔ خاطیوں کو عبرتناک سزائیں دلاتے ہوئے جھارکھنڈ کے ماتھے پر لگنے والے کلنک کو دھونے کی کوشش کریں ورنہ صرف زبانی جمع خرچ سے کچھ حاصل ہونے والا نہیںہے ۔