پولیس تحویل میں اذیت ، اہلیہ انصاف رسانی کی طلبگار ، سی سی فوٹیج منظر عام پر لایا جائے
سماجی جہد کاروں کے وفد کے دورہ کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب
حیدرآباد۔یکم مارچ(سیاست نیوز) میدک کے مسلم شخص عبدالقدیر خان کے ساتھ پولیس تحویل میں تھرڈ ڈگری کے استعمال کو انتہائی تشویش ناک بتاتے ہوئے حقائق سے آگاہی کمیٹی نے اس بات کا بھی انکشاف کیاکہ نہ صرف عبدالقدیر خان پولیس مظالم کا شکار ہوئے ہیں بلکہ ان کی بہن او ربہنوئی معین کے علاوہ قریبی دوست رضوان بھی پولیس مظالم کا شکار ہوئے ہیں۔ سماجی جہدکار خالدہ پروین کی زیر قیادت میدک سے حقائق کی جانکاری حاصل کرنے کے بعد واپس لوٹنے والے سماجی جہدکاروں کے وفد نے حیدرآباد پریس کلب میںایک پریس کانفرنس کے دوران ان خیالات کا اظہار کیاہے۔ کمیٹی نے حکومت سے فاسٹ ٹریک پراس حساس معاملے کی سنوائی کے علاوہ متوفی کے گھر والوں کو پچاس لاکھ روپئے کامعاوضہ بیوہ کو سرکاری ملازمت فراہم کرنے اور خاطی پولیس عہدیداروں کے خلاف تحقیقات کے ذریعہ متوفی عبدالقدیر خان کے ساتھ انصاف کی مانگ کی ہے۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے متوفی عبدالقدیر خان کی بیوہ فرزانہ نے نم آنکھوں سے اپنے شوہر کے ساتھ انصاف کی گوہار لگائی۔ انہوں نے 29جنوری سے 16فبروری تک کے واقعات کی تفصیلات سے میڈیا کو واقف کروایا او رکہاکہ میرا شوہر ایک محنت کشن شخص تھا جس پر چوری جیسا الزام ہے اس کے لئے ایک بڑی سزا تھی، اس کے باوجود متعلقہ پولیس اپنی تمام حدیں پار کرکے اس کے ساتھ ظلم وزیادتی کی اور اس کونیم مردہ حالت میںہمارے سپرد کیا۔انہوں نے پولیس پر الزام لگایاکہ رول گولڈ چین کی مبینہ چوری کے معاملے میںمیرے شوہر کو ہراساں وپریشان کیاگیااو راس قدر ان کی پیٹائی کی گئی کہ وہ چلنے کی حالت میںبھی نہیںتھے۔ فرزانہ نے بتایاکہ پولیس قدیر خان کو چھوڑنے کے بعد بھی ان کا تعاقب کرتی رہی اور تمام واقعات کی پردہ پوشی کا گھر والوں سے مسلسل اصرار کیاجارہا تھا۔ فرزانہ نے بتایاکہ قدیر خان کے سرکاری اسپتال میںعلاج سے پولیس مسلسل روکتی رہی اور پولیس کو اطلاع دئے بغیر ضلع کے سرکاری اسپتال کو لے جایاگیاتھا۔جہاں سے قدیر خان کو علا ج کے لئے گاندھی اسپتال منتقل کیاگیا۔ فرزانہ نے کہاکہ قدیر خان کو کوئی بیماری نہیں تھی مگر پولیس نے اس بے رحمی کے ساتھ ان کی پیٹائی کی کہ ان کے گردے ناکارہ ہوگئے تھے اور تیسرے ڈائیلاسیس کے دوران ان کی موت واقع ہوگئی۔فرزاحکومت سے انصاف کی گوہار لگاتے ہوئے زار وقطار روپڑیں اور اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے قدیر خان کی موت کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے نام بھی لئے ۔ انہوں نے کہاکہ سی آئی پرشانت کے علاوہ راج شیکھر ‘ پربھاکر اور پون نام کے پولیس جوان میرے شوہر عبدالقدیر خان کی موت کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے خاطیو ں کوکیفرکردارتک پہنچانے اور انہیںانصاف دلانے کی حکومت تلنگانہ سے مانگ کی ۔ سماجی جہدکار خالدہ پروین ‘ ایس کیو مقصود‘ عبدالعزیز خان ایم پی جی نے بھی میڈیا کو فیکٹ فائنڈنگس سے واقف کروایا۔ انہو ںنے بتایاکہ پولیس بغیر وارنٹ اور قانونی کاغذات کے میدک سے حیدرآباد آتی ہے او رحسینی عالم پولیس اسٹیشن سے رجوع ہوکر عبدالقدیر خان کو طلب کرنے کا اصرار کرتی ہے ۔ انہوں بتایاکہ حسینی عالم پولیس نے بغیر وارنٹ کے اس کام کو انجام دینے سے انکار کرنے کے بعد میدک پولیس باہر چلی گئی او راسی دوران قدیر خان کے دوست رضوان کو دوبارہ قدیر خان کا فون آیاجس کی بناء پر میدک پولیس نے قدیر خان کے بہنوئی معین کے گھر بناء سرچ ورانٹ کے دھاوا کیا۔خالدہ پروین نے کہاکہ غیرقانونی حراست میںلینے کے بعد میڑچل سے میدک پہنچنے تک پولیس عبدالقدیر خان کو زدوکوب کرتی رہی ۔ انہوں نے کہاکہ تین دن سے تحویل میںرکھ کر قدیر خان کے ساتھ تھرڈ ڈگری کااستعمال کیاگیا۔ انہوں نے تلنگانہ ہائی کورٹ نے سوموٹو لیا اور کاروائی کے لئے تین ہفتو ں کا وقت دیاہے اور خدشہ ہے ان تین ہفتوں کے دوران خاطیوں کے خلاف جو شواہد موجود ہیںان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جائے گی اور گواہوں کو گمراہ کیاجاسکتا ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ تلنگانہ ڈی جی پی نے بھی تحقیقات کا حکم دیاہے مگر اس پر اب تک کوئی عمل نہیں ہوا ہے ۔ خالدہ پروین نے کہاکہ حقائق کو منظرعام پر لانے کے لئے سب سے پہلے 29جنوری سے 16فبروری تک کے وہ سی سی ٹی وی فوٹیج کو محفوظ کیاجانا چاہئے جس میں میدک پولیس کی حمل ونقل قید ہے۔انہوں نے کہاکہ ضلع ایس پی کا رویہ بھی قابل مذمت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ انسانی حقوق کارکنوں کے ساتھ ایس پی کا سلوک اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خاطی پولیس اہلکاروں کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ حکومت ‘ عدلیہ اورپولیس عوامی توقعات کا مرکز ہوتے ہیںاور اگر اس طرح کے واقعات تلنگانہ میںرونما ہورہے ہیں۔عام عوام کس طرح کی انصاف کی تو قع کرسکتے ہیں۔
