قدیر خاں کے قاتل پولیس عہدیداروں کی گرفتاری کیوں نہیں ؟

   

ڈاکٹر آر ایس پروین کمار
آئی پی ایس ، صدر بہوجن سماج پارٹی تلنگانہ یونٹ
راجندر نگر پولیس اسٹیشن حدود میں حالیہ عرصہ کے دوران ایک مسافر دل کا دورہ پڑنے کے بعد شدیدعلیل ہوگیا اور پھر ٹرافک کانسٹیبل نے فوری طور پر فرسٹ ایڈ دیتے ہوئے اس شخص کو مرنے سے بچالیا۔ یہ خبر دیکھ کر مجھے پولیس عہدے پر گزارے ہوئے وہ دن یاد آئے اور میں اپنے آپ میں فخر محسوس کرنے لگا۔ اسی طرح سارے پولیس والوں سے عام شہری جان بچانے کی امیدیں رکھتے ہیں لیکن پچھلے دنوں ضلع میدک میں ہوئی قدیر خان کی موت کے ذمہ دار پولیس عہدیداروں کو دیکھنے کے بعد عوام نے شدید برہمی ظاہر کی۔ میں نے کاماریڈی میں قدیر خان کے افراد خاندان سے ملاقات کی ۔ متعلقین میں بیوہ اور تین اولادیں ہیں قدیر خان کی موت نے ان کے گھر کو اُجاڑ کر رکھ دیا۔افراد خاندان بے یار و مددگار کسمپرسی کے حالات میں بے تحاشہ روتے ہوئے نظر آئے۔ 27 جنوری کو قدیر خان، بہن اور بہنوئی کو حسینی علم پولیس نے چوری کے الزام میں مشتبہ افراد کے طور پر اسٹیشن بلوایا۔قدیر خان کو اسٹیشن میں ہی روک لیا گیا۔وہاں سے میدک ضلع کو لے جاکر قدیر خان پر مسلسل تین دن تھرڈ ڈگری کے نام پر بے انتہاء ظلم کیا گیا۔ 2 فروری کو گھر والوں کو اطلاع دے کر گھر بھجوایا گیا لیکن اُس وقت تک قدیر خان کے دونوں گردے ناکارہ ہو چکے تھے۔ اس بات سے آگاہ پولیس والوں نے سرکاری دواخانے میں علاج کیلئے شریک کروایا۔ بعد میں خانگی دواخانہ میں منتقل کیا گیا۔ وہاں پر بھی کوئی بہتری نہ آنے پر انہیں دوبارہ گاندھی ہاسپٹل منتقل کیا گیا۔ڈائیلاسیس کروانے کے باوجود جان نہ بچ سکی۔ بلاآخر قدیر خاں نے 7 فروری کو گاندھی ہاسپٹل میں آخری سانس لی۔ اس خبر نے مجھے اسی پولیس نوکری پر غصہ،ناراضگی،تکلیف دلائی۔ گاندھی ہاسپٹل میں علاج ہی کے موقع پر ہوئے ظلم کو ویڈیو کی شکل میں عوام کے سامنے رکھا۔ اسی کو ثبوت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے خاطیوں کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے لیکن آج تک بھی اُن عہدیداروں کوگرفتار نہیں کیا گیا۔ اعلیٰ عہدیدار نے خاطیوں کو صرف معطل کر کے ہاتھ جھٹک لیا۔ قدیر خان کی بیوی نے مزید کہا کہ ثبوتوں کو مٹانے کی سازش کے تحت دواخانے کے علاج سے متعلق کاغذات کو بھی پولیس عہدیداروں نے جلا دیا۔ قدیر خان پر چوری کا الزام ثابت نہ ہو سکا۔ چور نہ ہونے کے باوجود اور کوئی غلطی نہ کرنے کے باوجود قدیر خاں کو جان سے مار دیا گیا۔ حقیقتاً اگر چوری کی بھی جاتی، کوئی جرم ہوتا تب بھی قانون کو ہاتھ میں لے کر کسی کی جان لینے کا کوئی حق پولیس عہدیداروں کو کس نے دیا؟ یہ واقعہ جہالت اور انسانیت سوز سنگین حالات کی مثال پیش کر رہا ہے۔ دستور کی دفعہ 21 کے تحت جینے کا حق چھیننے والے اُن عہدیداروں پر کیوں کارروائی نہیں ہو رہی ہے؟ حراستی اموات کے متعلق ملک کی کئی عدالتوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ اس لئے حقوق انسانی کا تحفظ ریاستی حکومتوں کے حوالے کیا گیا تاکہ پر امن نظام قائم کیا جائے لیکن حکومتیں خود انسانی حقوق کو پامال کرتے رہیں تو کس سے گِلہ کیا جاسکتا ہے۔ ان اموات کی ذمہ داری سراسر ریاستی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔مجرم،اور قیدیوںکے بھی حقوق ہیں ، اس ملک میں صرف الزام کی بنیاد پر موت کے گھاٹ اتارنا سراسر خلاف دستور ہے۔ قدیر خان اگر واقعی چوری کرتا بھی تو گرفتار کرکے جرم ثابت کرنے کے بعد اسے سزا دی جاسکتی تھی لیکن جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی اسے موت کے گھاٹ اتار نے والے مجرم عہدیدار قاتل ہی کہلائیں گے۔ ایسے موقع پر مجرم عہدیداروں کے خلاف دفعہ 302 کے تحت مقدمہ کیوں درج نہیں کیا گیا۔ اُن پر اب تک کوئی کار روائی نہ ہونے کے پیچھے کھلم کھلا اس بات کا ثبوت ہے کے اس سازش کے پیچھے تلنگانہ حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔ تھرڈ ڈگری کا استعمال، معصوموں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کا حق کون دے رہے ہیں۔ نیریلا میں غیر قانونی طور پر ریت کا دھندا روکوانے والوں پر ظلم ہو یا مریامّہ کی موت ہو، اور اب قدیر خان کا قتل ہو، ان واقعات کے پیچھے حکومت ضرور ملوث ہے۔ اگر حکومت ان مجرموں کے ساتھ نہیں ہے تو پھر کیوں خاطیوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی اور انہیں مجرم کیوں نہیں ٹھہرایا جاتا؟چیف منسٹر کے سی آر اور وزیر داخلہ محمد محمود علی عوام کو جواب دیں۔ ایک طرف ’’شادی مبارک‘‘ کہتے ہوئے دوسری طرف اوقاف کی جائیدادوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے۔افطار کے بہانے سالانہ بجٹ کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ریزرویشن بڑھانے کا جھانسہ دے کر مسلمانوں کے خلاف ظلم کو بڑھادیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت مذہب کے نام پر مسلمانوں پر ظلم کر رہی ہے تو بی آر ایس حکومت اس کی ہاں میں ہاں ملاکر چل رہی ہے۔مسلمانوں کی واحد آواز جیسے کھوکھلے دعوے کرنے والی مجلس بھی قدیر خان کے قتل پر تلنگانہ حکومت کے سامنے اُف تک نہ کہہ سکی اور وہ اب اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کرچکی ہے جوکہ تشویشناک بات ہے۔وزیر داخلہ حقائق کی جانچ کروانے کے بجائے اور مقتول کے گھر والوں کو انصاف دلوانے کی بجائے خاموش ہیں اور انہیں اس حالت میں دیکھ کر ہم کو رحم آرہا ہے۔ باقی کانگریس و دیگر بڑی بڑی سکیولر ہونے کا دعویٰ کرنے والی پارٹیاں بھی اس قتل پر خاموش ہیں لیکن ہم بہوجن سماج پارٹی پہلے ہی دن سے قدیر خان کے ساتھ کھڑے ہیں اور انصاف کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ مرکزی و ریاستی حکومتوں کے اس رویے کی بہوجن سماج پارٹی پر زور مذمت کرتی ہے اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کے قدیر خان کی موت کے جو بھی پولیس عہدیدار ذمہ دار ہیں انہیں دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کرکے حراست میں لیا جائے۔ خاطیوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے اور ایک کروڑ روپئے ایکس گریشیا دیا جائے، ڈبل بیڈروم دیا جائے ، سرکاری ملازمت فراہم کی جائے ، بچوں کی تعلیم اور خاندان کی مکمل کفالت کی جائے۔ یہ انصاف ملنے تک بہوجن سماج پارٹی قدیر خان کیلئے جدوجہد جاری رکھے گی۔اب بی سی ، ایس سی ، ایس ٹیز و اقلیتوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ قدیر خان کی جگہ کوئی اعلیٰ ذات کا فرد ہوتا توکیا پولیس عہدیداروں کا یہی رویہ ہوتا؟ اگر ایسا ہوتا بھی تو پورے تلنگانہ میں ہنگامہ برپا کردیتے ،صرف ہم لوگوں کیساتھ ہی کیوں اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں، کیوں کے ہم بہوجن ہیں اور ہماری جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ہمیں جان سے بھی ماردیں تو کوئی قانون کچھ نہیں کرے گا۔اموات ہی ہمارے لیے انعامات ہیں کیا؟ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے کہنے کے مطابق اقتدار ہی ان تمام مسائل کا حل ہے اور وہ صرف بہوجن سماج پارٹی سے ہی ممکن ہے۔