قرآنی آیات حذف کرنیکا مطالبہ ۔منصوبہ بند سازش فہم قرآن اور تدبر قرآن پر توجہہ مرکوز کرنے کی ضرورت

   

ہندوستان کا وہ مکار دماغ جو ہندوستان کی سیاست پر پوری طرح حاوی ہے اور منظم طریقے سے ہندوستان کے آزاد نظام کو اپنے باطل ہتھکنڈوں سے غلام بنانے کے لئے سرگرم عمل ہے اور پوری طاقت و قوت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے ہندوستان کی آ ب و ہوا زہریلی اور ساری فضاء مکدر ہوگئی ہے ۔ حکومت کی معاشی ناکامی اور عوام دشمن پالیسیوں سے ذہن کو ہٹانے کیلئے ’’مذہبی کارڈ ‘‘ سے زیادہ آسان اور زیادہ مؤثر کوئی طریقہ نہیں ہے ۔ اس قدر مذہبی جنون کو فروغ دیا گیا ہے کہ اپوزیشن کو Stand لینا دشوارہوگیا ہے بلکہ مذہبی جنون کے خلاف آواز اُٹھانا خود کو اکثریتی طبقہ میں کمزور کرنے کے مترادف ہوگیا ہے ۔
ہندوستانی عوام کو مسلسل ذیلی اُمور میں اُلجھایا جارہا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں ملعون وسیم رضوی کا بیان منظرعام پر آیا جس میں اُس نے قرآن مجید سے چند آیات کو حذف کرنے کا شر انگیز مطالبہ کیا ہے ۔ یہ کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے بلکہ آر ایس ایس کا قدیم منشور کا حصہ ہے اُن کے زعم میں اس سے بہ آسانی اسلام کو متھم کیا جاسکتا ہے اور اس کی حقانیت و صداقت پر سوال اُٹھائے جاسکتے ہیں اور اس کو انسانیت کے خلاف باور کرایا جاسکتا ہے نیز مسلم کمیونٹی میں تفرقہ اور پھوٹ ڈالا جاسکتا ہے۔
تدوین قرآن کے مسئلہ پر سنی و شیعہ کا اختلاف رہا ہے ۔ بعض شیعی نظریات کے مطابق سب سے پہلے ’’جمع قرآن ‘‘ کا فریضہ حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ نے تن تنہا سر انجام دیاہے لیکن پیشرو تینوں خلفاء نے آپ کے اس کارہائے نمایاں کو نظرانداز کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی جس کے تحت قرآن مجید میں حکومتی سطح پر کچھ تحریف و تبدیلی کی گئی ۔
ملعون وسیم رضوی کا بیان آر ایس ایس کے منشور کے مطابق مسلم کمیونٹی میں تفرقہ ڈالنا اور شیعہ و سنی میں اختلافات کو اُبھارنا اور ان کے مابین مختلف فیہ مسائل و عقائد کو ہوا دیکر ان کو ایک دوسرے کے برسرپیکار کرنا ہے اور ہمارا مشاہدہ ہے کہ مشرق وسطی اور مسلم ممالک اسی شیعہ و سنی کی کشمکش کی وجہ سے تباہ ہورہے ہیں ۔
ہندوستان میں بھی شیعہ و سنی مسئلہ قدیم سے حساس رہا ہے لیکن ہندوستان کی مذہبی قیادت خواہ وہ سنی ہو یا شیعی محفوظ ہاتھوں میں ہے اور انھوں نے ہر مشکل و کٹھن مرحلے میں حکیمانہ فیصلے کئے اور ملت کے شیرازہ کو بکھرنے نہ دیا اور اپنی دانشمندی اور اتحاد سے دشمن کے منصوبوں کو ناکام کیا ۔
عموماً ہر مذہب کی تعلیمات میں موجودہ زندگی اور موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں تصریحات پائی جاتی ہیں جن کو ہم دنیا و آخرت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ بیشتر مذاہب دنیا و آخرت میں کامیابی اور ناکامی سے متعلق اپنے متبعین کو واضح ہدایات دیتی ہیں ۔ کامیابی کے طریقوں کے ساتھ ناکامی کی وجوہات بھی بتائی جاتی ہیں ۔ اچھائی کو اختیار کرنے کے لئے برائی کی کامل وضاحت اور اس سے نفرت و اجتناب کے راستوں کو بتانا معقول اور فطرت کے عین مطابق ہے اس لئے ایمان کے ساتھ کفر کی تفصیلات بھی بیک وقت دی جاتی ہیں۔ ایمان والوں کے لئے بشارتیں دی جاتی ہیں تو منکرین کے لئے وعیدیں سنائی جاتی ہیں ۔ اسی بناء پر حق اور باطل ، خیر اور شر ، معروف اور منکر ، طاعت اور معصیت ، وعدہ اور وعید ، سیدھا راستہ اور تیڑھا راستہ ، جنت اور دوزخ ، جزا اور سزا کا تصور پایا جاتا ہے ۔ یہی مذہب کی بنیاد اور اساس ہے ۔ جن آیات کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ بنیادی طورپر پانچ مضامین پر گھومتی ہیں (۱) غیرمسلم سے ربط و تعلق نہ رکھنا (۲) ان سے جہاد کرنا (۳) اسلام نہ لانے پر وعیدیں (۴) جزیہ (۵) مال غنیمت۔
خالق کے وجود کو ماننا اور اس کے احکامات کو تسلیم کرنا ایمان ہے اور انکار کرنا کفر ہے۔ خدا کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرنا طاعت و بندگی ہے اور اخروی سعادت کا موجب ہے جبکہ احکامات خداوندی کو نظرانداز کرنا معصیت ہے اور گرفت و مواخذہ کا باعث ہے اس لئے منکرین خدا اور نافرمانوں سے ایسا تعلق استوار رکھنا جو ہمارے خالق سے تعلقات پر اثرپیدا کرتا ہو منع ہے نیز بندے کے اپنے خالق سے رابطہ میں کوئی رکاوٹ کا سبب بنتا ہے تو ان اسباب کو روکنا اور اس کے لئے جدوجہد کرنا ایک مذہبی فریضہ ہے اور فضل الٰہی سے ان باطل قوتوں پر غلبہ ہوجائے تو ان کو سبق سکھانا اور دوسروں کو ایسی حرکتوں سے روکنے کے لئے حکمت عملی اختیار کرنا ایک معقول اور متفق علیہ مسئلہ ہے ۔ یہ احکامات صرف قرآن مجید میں موجود نہیں بلکہ تورات اور عہدنامہ قدیم اس سے لبریز ہے ۔ نیز ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں بھی اس کی تفصیلات پائی جاتی ہیں ۔ ان کو ایک قانون اور Constitution کی صورت میں دیکھا جائے تو واضح ہوگا کہ یہ ایک مکمل قانون کا لازمی حصہ ہے اس کے بغیر کوئی مذہبی یا ملکی قانون مکمل نہیں قرار پاتا اور قانون کے تحت قیود و تحدیدات ، شرائط اور تقاضے ہوتے ہیں اور اس کی استثنائی صورتیں ہوتی ہیں۔ ان کو مطلق ہندوستان کے موجودہ غیرمسلم برادران وطن سے متعلق سمجھنا اور غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرنا جہالت ہے ۔ ماہرین قانون اور ذی شعور حضرات کے نزدیک طفلانہ حرکت ہے جوکہ قابل التفات نہیں ۔
کوئی شخص اسلام کا دعویدار ہو اور قرآن پاک سے چند آیات حذف کرنے کا مطالبہ کرتا ہو تو ایسا شخص مرتد ہے اور خارج عن الاسلام ہے ۔ ایسا شخص مقررہ سزا کا حقدار ہے اور سزا دینے کا اختیار خواہ اسلامی ملک ہو یا غیراسلامی ملک صرف اور صرف عدالت کو حاصل ہے ۔ رعایا یا عام آدمی کو سزا دینے کا کوئی حق نہیں اور جو ایسی غلطی کریگا وہ گنہگار ہے اور سخت عذاب و سزا کا حقدار ہے تاہم منکرین آیات قرآنیہ کا جواب دینا ، ان کا بائیکاٹ کرنا اور جمہوری اور قانونی دائرے میں ان کو سزا دلانے کی جدوجہد کرنا لازمی ہے ۔ اور اگر وہ بیمار ہوں تو عیادت نہیں کی جائیگی اور نہ اس کی دعوت کو قبول کیا جائے گا اور نہ کفن پہنچایا جائے گا اور نہ نماز جنازہ ادا کی جائیگی بلکہ ایک گڑھے میں ناپاک جانور کی طرح گاڑ دیا جائیگا ۔
دشمن نہایت مکار ہے اور اس کے عزائم بہت خطرناک ہے اور وہ قانونی دائرے میں قرآن مجید کے تقدس کو کم کرنا چاہتے ہیں ۔ سپریم کورٹ میں جو رٹ داخل کی گئی ہے اُمید ہے کہ وہ خارج ہوجائیگی تاہم اگر وہ خارج نہیں کی گئی تو قانونی نقطہ نظر سے کیا قرآن مجید کی “Infallibility” ( عصمت و قداست) پر فرق آ سکتا ہے یا نہیں ؟ ماہرین قانون کو ایسے احتمال اور ممکنہ پہلوؤں پر غوروخوض کرکے لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے ۔ ہم بحیثیت مسلمان قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اور کسی ایک حرف کے حذف کئے جانے کو برداشت نہیں کرسکتے تاہم رب کائنات نے عرش الٰہی سے جس مقدس کلام و پیغام کو اپنے بندوں کے نام بھیجا ہے کیا ہم اس کو سمجھنے اور اس پر غور و فکر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ؟ کیا فہم قرآن اور تدبر قرآن کی طرف توجہہ کرنا ہمارا فرض نہیں ؟
موجودہ حالات اہل اسلام کو جھنجوڑنے کے لئے کافی ہیں کہ ہم ذیلی اور فروعی مسائل میں اُلجھے ہوئے رہنے کی بجائے تلاوت قرآن ، فہم قرآن ، تدبر قرآن اور عمل بالقرآن کی طرف توجہ کریں۔ اسی میں ہماری ہر بیماری اور تکلیف کا علاج ہے ۔