قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط کرنا ہرکسی کا کام نہیں

   

حضرت شیخ الاسلام حافظ محمد انوار اﷲ فاروقی رحمۃ اﷲ علیہ حقیقۃ الفقہ حصہ اول میں ’’قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط کرنا ہرکسی کا کام نہیں ‘‘ کے متعلق بڑی جامع تحریر فرماتے ہیںکہ : یہ امر پوشیدہ نہیں کہ قرآن شریف ، فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ درجہ میں واقع ہے جس کو مخالفین نے بھی تسلیم کرلیا ہے ۔ کیونکہ جب دعویٰ سے کہا گیا ’’ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّـٰهِ اِنْ كُنْتُـمْ صَادِقِيْنَ‘‘ تو کسی سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ ایک دو سطر لکھ کر پیش کر دیں جو فصاحت و بلاغت میں قرآن کا جواب ہو سکے اس سے بلاغت قرآن کا معجز ہونا بداہۃثابت ہے۔ اور کلام بلیغ کا خاصہ ہے کہ باوجود عام فہم ہونے کے اکثر مضامین اُس میں ایسے بھی ہوں کہ خاص خاص لوگ ہی اُس پر مطلع ہوسکیں ۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے ’’ الکنایۃ ابلغ من التصریح ‘‘ کنایہ کے ابلغ ہونے کی کوئی وجہ سوائے اس کے نہیں کہ اُس کا پورا پورا مضمون سمجھنا خاص لوگوں کا ہی حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ نکتہ رس اور سخن شناس علماء نے غور و فکر کر کے ایک ایک آیت کے کئی کئی معنی بیان کئے جن کا سمجھ لینا بھی ہر کسی کا کام نہیں پھر جس طرح عبارت قرآن سے مسائل سمجھے جاتے ہیں ، دلالت اور اشارت اور اقتضاء سے بھی سمجھے جاتے ہیں ۔ اور اس کے سوا نظم اور معانی سے اتنے مباحث متعلق ہیں کہ اُن کے بیان میں خاص ایک فن اصول فقہ مدون ہوگیا ہے ۔ غرض ہر کسی کا کام نہ تھا کہ ان مباحث پر مطلع ہو کر قرآن سے مسائل نکال سکتا ۔

پھر قرآن شریف میں ناسخ و منسوخ آیتیں بھی ہیں اور ہر ایک آیت کی تاریخ نزول نہیں لکھی گئی جس سے ناسخ آیتیں جوواجب العمل ہیں معلوم ہوجائیں اور جو اقوال وارد ہیں متواتر نہ ہونے کی وجہ سے قطعی الثبوت نہیں ، بہرحال ناسخ آیتوں کا معین کرنا قرائن حالیہ و مقالیہ سے متعلق ہے جس کے لئے اعلیٰ درجہ کی فہم درکار ہے ۔
پھر اسی قسم کی دقتیں احادیث کے سمجھنے میں بھی پیش آئیں اور علاوہ اس کے احادیث میں اختلاف بھی بہت کچھ واقع ہوگیا ہے، اس وجہ سے کہ صحابہ وقتاً فوقتاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے رخصت ہو کر اپنے قبائل کو اور جہاد وغیرہ کیلئے جایا کرتے تھے اور جو حضرات مدینۂ منورہ میں رہتے تھے وہ بھی ہر وقت حاضر خدمت نہیں رہ سکتے تھے ۔ غرضکہ غیرحاضری کے زمانہ میں سب ارشادات اُن کو نہیں معلوم ہوئے اور جو کچھ دیکھا اور سُنا تھا اُس کا بیان کر دینا بھی اُن کو ضرور تھا اس وجہ سے ہر قسم کے احادیث مخلوط ہوگئیں اور ہر مسئلہ میں مابعد کے اقوال و افعال ممتاز نہ ہوسکے جو ناسخ سمجھے جاتے کیونکہ جس طرح قرآن میں ناسخ و منسوخ ہیں احادیث میں بھی ہیں جن کا قرائن سے معین کرنا ہر کسی کا کام نہیں ۔

پھر قرآن و حدیث میں جس طرح الفاظ معانی موضوع لہ میں مستعمل ہیں ‘غیر معانی موضوع لہ میں بھی مستعمل ہیں اور یہ معلوم کرنا بھی ہر کسی کا کام نہیں کہ کونسا لفظ حقیقی معنی میں مستعمل ہے اور کونسا مجازی معنی میں ،پھر مقصود شارع یہ ہے کہ ہر کلام کے سمجھنے میں قرائن سے مدد لیجائے ،گو الفاظ مساعدت نہ کریں چنانچہ اس حدیث شریف سے ظاہر ہے۔ ترجمہ : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد ابن ولیدرضی اللہ عنہ کو قبیلہ بنی خزیمہ کی طرف بھیجا ‘ اُنہوں نے اُن کو اسلام کی دعوت دی مگر اُن لوگوں نے صاف طور پر یہ نہ کہا کہ ہم اسلام لائے بلکہ صبأنا صبأنا کہنے لگے یعنی ہم اپنے دین سے پھر گئے خالدرضی اللہ عنہ نے اُس کا خیال نہ کر کے اُن کو قتل کرنا اور قید کرنا شروع کیا ‘چنانچہ ایک ایک قیدی ایک ایک شخص کے حوالہ کیا پھر ایک روز حکم دیاکہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کر ڈالے میں نے کہا :خدا کی قسم ! میں اور میرے ساتھ والے ہر گز قتل نہ کریں گے، جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ واقعہ بیان کیا تو حضرت ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے الٰہی ! خالد نے جو کیا ہے میں اُس سے بری ہوں ، یہ الفاظ دو مرتبہ فرمائے انتہی۔ {رواہ البخاری} اس سے ظاہر ہے کہ معنی سمجھنے میں قرائن سے مدد لینے کی سخت ضرورت ہے اور ظاہر الفاظ سے جو مضمون سمجھاجاتا ہے ہمیشہ وہی مقصود نہیں ہوا کرتا ،اس لئے قرآن و حدیث کا پورا پورا مطلب سمجھنا ہر کسی کا کام نہیں ۔
پھر چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اوتیت جوامع الکلم‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ قرآن و حدیث کی عبارتوں میں کئی پہلو ہوا کرتے ہیں جن سے مسائل کا استنباط مختلف طور پر ہوسکتا ہے ‘ اُن کا معلوم کرنا بھی ہرکسی کا کام نہیں ۔
پھر اکثر احکام میں علّتیں ملحوظ ہوا کرتی ہیں جن سے یہ مقصود ہوتاہے کہ جہاں وہ علت پائی جائے قیاس سے وہ حکم ثابت کیا جائے اور علّت کا معین کرنا نہایت مشکل کام ہے ۔
{حقیقۃ الفقہ حصہ اول ، ص ۱۱،۱۲،۱۳}