اور ہم نازل کرتے ہیں قرآن میں وہ چیزیں جو (باعثِ ) شفا ہیں اور سراپا رحمت ہیں اہل ایمان کے لیے اور قرآن نہیں بڑھا تا ظالموں کے لیے مگر خسارہ کو۔ اور جب ہم کوئی انعام فرماتے ہیں انسان پر تو وہ (بجائے شکر کے ) منہ پھیر لیتا ہے… (سورۃ الاسراء : ۸۲۔۸۳)
یعنی انسان ذہنی ، قلبی، روحانی، جسمانی اور اخلاقی جن جن بیماریوں سے دو چار ہوتا ہے ۔ اس نسخہ کیمیا میں ان تمام روگوں کیلیے شفا ہے غفلت کی کدورت، شک و ارتیاب کی تاریکی ، کفر و شرک کی نجاست اس کے فیض سے سب دھل جاتی ہیں۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ اس کو دیانتداری سے اپنا خضر راہ بنایا جائے پھر اس کی رحمت کے چشمے علم و عمل کے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں اور رشک صدارم بنا دیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے اور جو اس کو پہچانتے ہی نہیں اور اس کے پہچاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ ان کی بدبختی میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کا مطلع حیات تیرہ وتار ہو جاتا ہے۔یہ دنیا دار المحن ہے۔ انسان کو اپنی زندگی میں مختلف قسم کے حالات سے واسطہ پڑتا ہے۔ کبھی عزت و وقار کا آفتاب نصف النہار پر چمک رہا ہوتا ہے۔ راحت و مسرت کی چاندنی ہر طرف نور برسا رہی ہوتی ہے۔ امیدوں کے غنچے کھل کھل کر پھول بن رہے ہوتے ہیں۔ جو قدم اُٹھتا ہے کامیابی کی طرف اُٹھتا ہے۔ ہر تدبیر ہم آہنگ تقدیر معلوم ہوتی ہے اور کبھی رنج و غم کا اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ حزن و ملال کی اُداسی ہر طرف دامن پھیلائے ہوتی ہے۔ جدھر رُخ کرتا ہے محرومی و نامرادی کا سامنا ہوتا ہے۔